مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: ترکی کی اسلامی جماعت سعادت پارٹی ان سیاسی جماعتوں میں شمار ہوتی ہے جو نہ صرف فکری و نظریاتی اعتبار سے بلکہ عملی سیاست میں بھی نمایاں مقام رکھتی ہے۔ اس جماعت کی بنیاد 2001 میں ترکی کے سابق وزیر اعظم اور ممتاز اسلامی رہنما مرحوم نجم الدین اربکان نے رکھی تھی، جن کی سیاست کا مرکزی نکتہ عالم اسلام کا اتحاد اور باہمی تعاون تھا۔
حال ہی میں محمود آریکان نے سعادت پارٹی کی قیادت سنبھالی ہے اور وہ مرحوم اربکان کے فکری مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے مختلف اسلامی ممالک کے دورے کر رہے ہیں۔ ان دوروں کے دوران وہ اسلامی دنیا کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کرکے مسلم ممالک کے درمیان اتحاد اور مشترکہ مؤقف کے فروغ کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
انہی علاقائی اور داخلی سیاسی پیش رفتوں کے تناظر میں، خبر رساں ادارے مہر کے نمائندے نے ترکی کی صورتحال اور ایران کے بارے میں سعادت پارٹی کے مؤقف کو جاننے کے لیے پارٹی سربراہ محمود آریکان سے خصوصی گفتگو کی ہے، جس کی تفصیل ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔
ترکی میں سعادت پارٹی کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ یہ مقام صرف سیاسی اعتبار سے نہیں بلکہ بالخصوص معنوی اور فکری لحاظ سے بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جماعت کی بنیاد مرحوم نجم الدین اربکان نے رکھی تھی اور یہ دراصل ان کے افکار اور سیاسی فکر کی وارث ہے۔ سعادت پارٹی ہمیشہ سے فلسطین کے مسئلے کو خصوصی اہمیت دیتی آئی ہے۔ غزہ سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ منصوبے پر اپنی جماعت کے مؤقف کی وضاحت کریں۔
یہ منصوبہ کسی بھی صورت میں امن منصوبہ نہیں بلکہ غزہ اور فلسطین پر کھلی جارحیت اور قبضے کا منصوبہ ہے۔ ٹرمپ کا 20 نکاتی منصوبہ دراصل قاتل نتن یاہو اور دہشت گرد صہیونی حکومت کی ایک کوشش ہے کہ وہ امریکی حمایت کے ساتھ وہ کچھ مذاکرات کی میز پر واپس حاصل کرلیں جو میدان جنگ میں کھوچکے ہیں۔
یہ منصوبہ درحقیقت جدید مشرق وسطی منصوبے کا نیا مرحلہ اور گریٹر اسرائیل کے قیام کی سمت ایک نیا قدم ہے۔ ٹرمپ اور اس کے صہیونی اتحادی کافی عرصے سے کھلے عام یہ ارادہ ظاہر کررہے ہیں کہ غزہ کو کسی طرح خطے کا لاس ویگاس بنا دیا جائے اور اس کے عوام کو ان کی آبائی سرزمین سے بے دخل کر دیا جائے۔ موجودہ منصوبہ اسی مذموم نیت کے باضابطہ نفاذ کی کوشش ہے۔ میں صاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ یہ 20 نکاتی منصوبہ اعلانِ بالفور سے بھی کہیں زیادہ خطرناک اور سنجیدہ ہے۔ اعلانِ بالفور ایک دہشت گرد صہیونی ریاست کے قیام کا منصوبہ تھا، جبکہ ٹرمپ کا اعلان مکمل طور پر فلسطین کے خاتمے کا منصوبہ سمجھا جانا چاہیے۔ امریکی منصوبے کبھی بھی مسلمانوں کے فائدے میں نہیں ہوسکتے اور ٹرمپ کا اعلان بھی غزہ یا فلسطین کے لیے کسی امن کا پیغام نہیں لاتا۔ ٹرمپ درحقیقت عالمی صہیونیت کا سی ای او ہے۔ ٹونی بلیئر، جسے ’’عراق کا قصاب‘‘ کہا جاتا ہے اور جس کا نام غزہ کے انتظام و انصرام سے جوڑا جا رہا ہے، وہی شخص ہے جسے آج کی صہیونیت غزہ کے مستقبل کے لیے متولی کے طور پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔ لیکن یہ بات سمجھنی چاہیے کہ غزہ صرف زمین کا ایک ٹکڑا نہیں جسے کسی معاہدے کے ذریعے مٹا دیا جائے یا اس کے لیے کوئی نگران مقرر کر دیا جائے۔ غزہ ابتدا سے انتہا تک فلسطینی عوام کی سرزمین ہے۔ کوئی بھی شخص اس جارحانہ منصوبے کو امن کے نام پر اسلامی دنیا پر مسلط نہیں کرسکتا، اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ ’’لیکن، اگر یا مگر‘‘ کہہ کر اس طرح کے منصوبے کو درست یا جائز ثابت کرنے کی کوشش کرے۔
شام میں اس وقت امن اور استحکام نہیں ہے۔ بشار اسد کے بعد اسرائیل شام میں مسلسل پیش قدمی کررہا ہے۔ اس حوالے سے کیا آپ کی کیا رائے ہے؟
ہم سمجھتے ہیں کہ خطے میں کوئی بھی واقعہ اتفاقا نہیں ہوتا۔ ہر پیش رفت کے پیچھے بڑی طاقتوں کے طویل المدتی منصوبے ہوتے ہیں۔ اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ اور سلامتی سے متعلق اہداف کے تحت آگے بڑھ رہا ہے، جبکہ امریکہ بھی مشرقِ وسطی خاص طور پر شام میں اپنے اسٹریٹجک مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتا ہے۔ ایسے حالات میں یہ بات واضح ہے کہ شام کا مسئلہ صرف فوجی طاقت یا بیرونی مداخلت سے حل نہیں ہوسکتا۔ پائیدار اور منصفانہ حل اسی وقت ممکن ہے جب شامی عوام کی رائے کو بنیاد بنایا جائے، زمینی حقائق کو تسلیم کیا جائے اور قانون کی بالادستی کو مقدم رکھا جائے۔ سعادت پارٹی نہ تو جابرانہ حکومتوں کی حمایت کرتی ہے اور نہ ہی بیرونی مداخلت کو درست سمجھتی ہے، کیونکہ ہمارا اصول انسانی وقار کا تحفظ ہے۔
ہم یقین رکھتے ہیں کہ شام اور پورے خطے میں امن کا راستہ علاقائی ممالک کے باہمی تعاون، بات چیت اور مشترکہ کوششوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ ماضی نے بار بار ثابت کیا ہے کہ بیرونی طاقتوں کی خودغرض پالیسیاں صرف بدامنی میں اضافہ کرتی ہیں۔ ترکی کو اپنی تاریخی ذمہ داری اور جغرافیائی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی پالیسی اپنانی چاہیے جس میں امن کو ترجیح دی جائے، سفارت کاری کو مضبوط بنایا جائے اور خطے میں تنازعات کو ہوا دینے کے بجائے مثبت اور تعمیری کردار ادا کیا جائے۔ ہم ایک ایسے شام کے خواہاں ہیں جس کی سرحدیں پرامن اور محفوظ ہوں اور بیرونی مداخلت کے بغیر عوام سکون سے زندگی گزار سکیں۔ سعادت پارٹی کے نزدیک مسئلے کا حل طاقت کے استعمال میں نہیں بلکہ عوام کی مرضی کو ترجیح دینے اور انصاف پر مبنی نظام کے قیام میں ہے۔
مرحوم پروفیسر اربکان ایران اور ترکی کے تعلقات کو بہت اہم سمجھتے تھے۔ آپ، بطور موجودہ رہنما، دونوں ممالک کے موجودہ تعلقات کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ کون سے شعبوں میں مزید تعاون کی ضرورت ہے؟
ترکی اور ایران کے تعلقات بہت اہم ہیں۔ ایران نہ صرف ترکی کا قریبی پڑوسی ہے بلکہ اس کے تاریخی اور ثقافتی روابط کی وجہ سے بھی ترکی کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ اس لیے تعلقات کو مضبوط بنیاد، باہمی احترام اور دونوں کے فائدے پر قائم ہونا چاہیے۔ خطے میں آج جو سیاسی اور سیکورٹی کے مسائل ہیں، وہ صرف دو ممالک تک محدود نہیں، بلکہ خطے کی بڑی طاقتوں اور عالمی حالات سے بھی جڑے ہیں۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان جو کشیدگی نظر آرہی ہے، وہ دراصل ایران اور عالمی صہیونیت کے درمیان تصادم کا حصہ ہے۔ اس لیے ترکی کو اپنے سفارتی مواقع کو سمجھداری سے استعمال کرنا چاہیے۔ ہماری نظر میں ترکی اور ایران کو تعلقات ایسے قائم کرنے چاہئیں کہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان تعاون بڑھے اور خطے میں استحکام قائم ہو۔ بات چیت، سفارت کاری اور اقتصادی تعلقات کو ترجیح دی جائے۔ خصوصی شعبوں جیسے توانائی، تجارت، سیکورٹی اور ثقافت میں تعاون سے تعلقات مضبوط ہوں گے اور خطے میں امن قائم رکھنے میں مدد ملے گی۔ الغرض ترکی اور ایران کے تعلقات صرف ایک مسئلے تک محدود نہیں ہیں بلکہ ایک طویل المدتی اسٹریٹجک رشتہ ہیں، جسے اعتماد اور باہمی تعاون سے آگے بڑھانا چاہیے تاکہ خطے میں امن اور انصاف قائم رہے۔
حال ہی میں آپ کی ملاقات فاتح اربکان، مرحوم اربکان کے بیٹے اور موجودہ حزب رفاہ کے رہنما، سے ہوئی۔ اس ملاقات کا پیغام کیا ہے؟ کیا یہ ترکی کی داخلی سیاست میں کسی نئے اتحاد کی نشاندہی کرتی ہے؟
یہ ملاقات کسی نئے انتخابی اتحادی کی تشکیل کے لئے نہیں بلکہ ترکی میں سیاسی جماعتوں کے درمیان تعلقات اور بات چیت کو مضبوط کرنے کے لیے ہوئی۔ ہم رفاہ پارٹی کے نمائندوں کے ساتھ باقاعدہ رابطے کو نہایت ضروری سمجھتے ہیں۔ ملاقات میں ملک اور خطے کی موجودہ صورتحال پر تفصیلی بات چیت ہوئی اور یہ طے کیا گیا کہ ترکی کو مستقبل میں بہتر اور ترقی یافتہ بنانے کے لیے کون سے اقدامات کیے جائیں۔ چونکہ اگلے انتخابات ممکنہ طور پر 2027 میں ہوں گے، اس لیے ضروری ہے کہ قومی نظریے پر مبنی سیاسی جماعتیں وقتا فوقتا ملاقات کریں اور ملکی و علاقائی حالات کا مشترکہ جائزہ لیں۔ سعادت پارٹی تعمیری بات چیت، تعاون اور عوام کے ساتھ براہ راست رابطے کو ترجیح دیتی ہے۔ انتخابی اتحاد کے حوالے سے فیصلے بعد میں، قومی مفاد اور قانون کے مطابق کیے جائیں گے۔ پارٹی کی توجہ عوام کے مسائل، ملک کی ترقی اور انصاف پر مرکوز ہے۔
حال ہی میں ترکی میں منتخب میئرز کو عہدوں سے ہٹایا جارہا ہے اور حکمران پارٹی کی طرف سے خاص طور پر کرد علاقوں میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے میئرز کی جگہ سرپرست مقرر کیے جارہے ہیں۔ سعادت پارٹی کا اس پالیسی کے بارے میں کیا موقف ہے؟
سعادت پارٹی کا موقف واضح اور اصولی ہے کہ عوام کی رائے ووٹ کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے اور عوام کی یہی رائے حکومت کی بنیاد ہونی چاہیے۔ منتخب مقامات پر سرپرست یا قیم کی تعیناتی، چاہے وہ مقامی سطح ہو یا کسی اور سطح پر، درست یا پائیدار نہیں اور نہ ہی یہ جمہوریت کے اصولوں کے مطابق ہے۔ یقینا کسی بھی ملک میں قانون سب پر فوقیت رکھتا ہے۔ اگر کسی سرکاری اہلکار کی خلاف ورزی یا جرم ثابت ہوجائے تو واضح قانونی راستہ موجود ہے اور مناسب عدالتی کارروائی کے ذریعے فیصلہ کیا جانا چاہیے۔ اہم بات یہ ہے کہ ایسے استثنائی اقدامات، جیسے سرپرستوں کی تعیناتی مستقل حکمت عملی بن جائیں تو یہ جمہوریت کے اصولوں کو کمزور کرتے ہیں اور عوام کا منتخب اداروں پر اعتماد ختم کر دیتے ہیں۔ سعادت پارٹی چاہتی ہے کہ ملک کا سسٹم شفاف، عدالتی انصاف اور مضبوط قانونی ڈھانچے پر مبنی ہو۔ ہمیں یقین ہے کہ ہر شہر کے انتظامی اور قانونی مسائل قوانین اور جمہوری اصولوں کے مطابق حل ہونے چاہئیں۔ سعادت پارٹی کا موقف پختہ ہے کہ عوام کی مرضی سب سے اہم ہے اور اسے صرف قانون اور انصاف کے ذریعے محفوظ رکھا جانا چاہیے۔
سعادت پارٹی کا امرالی مذاکرات اور "دہشت گردی سے پاک ترکی" کے عمل کے بارے میں کیا موقف ہے؟
سعادت پارٹی اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے دیکھتی ہے۔ ہم امرالی مذاکرات اور "دہشت گردی سے پاک ترکی" کے مقصد پر قریب سے نظر رکھتے ہیں۔ ہماری اور پورے ترکی کی خواہش یہی ہے کہ ملک دہشت گردی سے آزاد ہو اور ایک پائیدار امن اور محفوظ ماحول قائم ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس راستے میں اٹھائے گئے اقدامات سماجی امن، قانون کی بالادستی اور جمہوری اصولوں کے مطابق ہوں۔ سعادت پارٹی کے مطابق امرالی مذاکرات میں شفافیت، قانونی حیثیت اور پارلیمنٹ کی مرکزی حیثیت بہت اہم ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ قومی اسمبلی کو اس عمل میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے، کیونکہ صرف بند کمروں میں ہونے والی بات چیت عوام کی نمائندگی نہیں کرسکتی۔ اسی لیے پارلیمنٹ کے نمائندوں کو باخبر رکھنا اور ان کی شمولیت لازمی ہے۔ جب امرالی کے مذاکراتی وفد نے سعادت پارٹی کے نمائندوں سے ملاقات کی، ہم نے اپنی تشویش اور خیالات کھل کر پیش کیے۔ ہم نے کہا کہ یہ معاملہ پارٹی کی ماہر کمیٹیوں میں تفصیل سے زیر غور آیا ہے اور ہم اس عمل میں تعمیری حصہ لینے کے لیے تیار ہیں۔
ہمارے لیے "دہشت گردی سے پاک ترکی" صرف ایک پارٹی کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ ملک میں سماجی امن، بھائی چارگی اور اعتماد قائم کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ یہ مقصد صرف ہتھیاروں کو چھوڑنے سے حاصل نہیں ہوگا، بلکہ قانون کی بالادستی، انسانی حقوق کے احترام اور پارلیمنٹ کے ذریعے عوام کی مرضی کے مطابق اقدامات کرنے سے ممکن ہے۔
آپ کا تبصرہ