مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، امریکی حکومت کی نئی پالیسیوں نے اندرون ملک اور بین الاقوامی سطح پر شدید ردعمل کو جنم دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت سنبھالنے کے بعد جارحانہ پالیسیاں اپنائیں، جن میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں اسرائیل کی حمایت اور دیگر ممالک پر بھاری تجارتی محصولات عائد کرنا شامل ہے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں امریکہ اور دیگر ممالک میں احتجاج کی لہر دوڑ گئی۔
صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کے بعد واشنگٹن سمیت امریکہ بھر میں ہزاروں افراد نے سڑکوں پر نکل کر ٹرمپ اور ان کے ارب پتی اتحادی ایلن مسک کے خلاف مظاہرے کیے۔
یہ احتجاجی مظاہرے نہ صرف امریکہ کی تمام 50 ریاستوں میں منظم طور پر کیے گئے، بلکہ کینیڈا اور میکسیکو جیسے دیگر ممالک میں بھی مظاہرے ہوئے۔
واشنگٹن میں نیشنل مال کے اطراف میں بارش کے باوجود بڑی تعداد میں مظاہرین جمع ہوئے۔ منتظمین کے مطابق صرف واشنگٹن میں 20 ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی، جب کہ مجموعی طور پر 150 سے زائد تنظیمیں اس مظاہرے میں شامل ہوئیں۔
مظاہرین میں سے بعض کے ہاتھوں میں "فلسطین کو آزاد کرو" کے پلے کارڈز اور فلسطینی شالیں تھیں، جب کہ بعض نے یوکرین کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔
احتجاج میں شریک افراد ٹرمپ کی پالیسیوں، غزہ کے خلاف صہیونی حکومت کی حمایت، وفاقی بجٹ میں کٹوتی اور عالمی تجارتی محاذ آرائی پر شدید تنقید کر رہے تھے۔
ریاست نیویارک میں بھی احتجاجی مظاہرین نے حکومت مخالف نعرے لگائے اور صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کو ملک کی بنیادی ساخت کے لیے خطرہ قرار دیا۔ مظاہرین نے کہا کہ ٹرمپ کے اقدامات امریکی ریاستی اداروں کو کمزور کرنے اور ایک طاقتور صدارتی نظام مسلط کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔
امریکی کانگریس کے ڈیموکریٹک اراکین نے بھی ٹرمپ کی پالیسیوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے انہیں جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
آپ کا تبصرہ