مہر خبررساں ایجنسی؛ بین الاقوامی ڈیسک: صیہونی حکومت نے اپنی نئی جارحیت کے ذریعے مغربی کنارے کے خلاف گزشتہ دو دہائیوں میں سب سے بڑا حملہ کیا۔ یہ جارحیت بنیادی طور پر جنین کے 39,000 افراد کی آبادی والے شہر، اس کے آس پاس کے قصبوں اور جنین میں طولکرم اور نور شمس پناہ گزین کیمپ، دریائے اردن کی وادی کے شمال میں الفرح مہاجر کیمپ، پر مرکوز ہے۔
اس آپریشن میں صیہونی حکومت کی 4 بٹالین شریک ہیں جسے عبرانی میڈیا نے 2002ء کے بعد مغربی کنارے کے خلاف سب سے وسیع حملہ قرار دیا ہے۔
اس مضمون میں اس نئی جارحیت میں صیہونی حکومت کے اہم اہداف کا جائزہ لیا گیا ہے۔
فلسطینی مزاحمت کی عوامی حمایت کو کچل دینا
ایسا لگتا ہے کہ مغربی کنارے کے خلاف صیہونی حکومت کے بڑے حملے کا سب سے اہم ہدف مزاحمت کی عوامی حمایت کو تباہ کرنا ہے۔
آج فلسطینی مزاحمت صرف غزہ تک محدود نہیں ہے بلکہ مغربی کنارے اور خاص طور پر جنین تک پھیل چکی ہے۔
اسرائیلی وزیر خارجہ یسرائیل کاٹز نے بدھ کے روز مغربی کنارے پر اسرائیلی فوج کے حملے کے بعد کہا: ہمیں مغربی کنارے کے خطرے کو غزہ کی طرح سمجھنا چاہیے۔ صیہونی حکومت کے وزیر خارجہ کا بیان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس رجیم کے حکام کا خیال ہے کہ وہ مزاحمت کی عوامی حمایت کو بڑے حملوں سے نشانہ بنا سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ تاریخی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ جنین کیمپ کے خلاف 2002 کی جنگ جیسے بڑے پیمانے پر ہونے والے جرائم بھی مزاحمت کی عوامی حمایت کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
مغربی کنارے پر قبضہ اور فلسطینیوں کے لئے دوسری ہوم لینڈ پالیسی
فلسطینیوں کے حوالے سے غاصب صیہونی حکومت کی اہم ترین حکمت عملیوں میں سے ایک انہیں فلسطین سے باہر کسی اور جگہ منتقل کرنا ہے۔ جیسے اردن میں دسیوں ہزار فلسطینی پناہ گزین ہیں، جسے صیہونی غاصب حکومت فلسطینیوں کا دوسرا وطن تصور کرتی ہے۔ تاہم مستقبل کی فلسطینی ریاست کو کالعدم قرار دینے کے لیے نیتن یاہو کے امریکا کے آخری سفر سے عین قبل کینیسٹ نے جو قرارداد پاس کی تھی، اس میں مذکورہ منصوبے کی مخالفت کی گئی تھی۔ اس قرارداد میں کہا گیا ہے: "کنیسٹ دریائے اردن کے مغرب میں زمین کے کسی بھی ٹکڑے پر فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کرتی ہے۔ "اسرائیل کے قلب میں ایک فلسطینی ریاست کا وجود اسرائیل اور اس کے شہریوں کے لیے خطرہ ہو گا اور اسرائیل فلسطین تنازعے میں اضافہ ہونے کے ساتھ پورے خطے کے لیے عدم استحکام کا باعث ہو گا۔
صیہونی وزیر خارجہ نے مغربی کنارے کے خلاف حملے شروع ہونے کے بعد مغربی کنارے سے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کو اس علاقے سے نکال دیا جائے تاکہ اس حکومت کو کوئی خطرہ نہ ہو۔
درحقیقت مغربی کنارے پر صیہونی حکومت کے بڑے پیمانے پر حملے کا ایک اہم مقصد فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دینا اور ان کو اپنی سرزمین سے بڑے پیمانے پر بے دخل کرنا اور غاصب حکومت کے مطالبات کو پورا کرنا ہے۔
فلسطینیوں کی نسل کشی اور حماس مخالف اقدام
صیہونی حکومت نے گزشتہ 11 مہینوں میں 40 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید اور تقریباً 95 ہزار افراد کو زخمی کرنے کے ساتھ ساتھ طبی مراکز، رہائشی علاقوں، اسکولوں اور کیمپوں تک کو نشانہ بنا کر حماس کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کی اور ان وحشیانہ جرائم کو طوفان الاقصیٰ کا نتیجہ اور ردعمل قرار دیا۔
درحقیقت غزہ میں نسل کشی کے ساتھ صیہونی حکومت نے حماس کو بدنام کرنے اور عوام اور اس فلسطینی تحریک کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اب اس نے مغربی کنارے پر حملہ شروع کر دیا اور یہاں تک دھمکی دی کہ جو کچھ غزہ میں ہوا مغربی کنارے میں بھی ہونا چاہیے۔ صیہونی حکومت فلسطینیوں کو حماس کی حمایت کے جرم میں اجتماعی سزا دیتی ہے جو کہ نسل کشی کی ایک بدترین مثال ہے، اور دوسرے لفظوں میں غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں سے حماس کی حمایت ختم کرانے پر تلی ہے۔ لیکن اس بے مثال نسل کشی کے باوجود، صہیونی تجزیہ کار اور حکام بھی یہ سمجھتے ہیں کہ حماس کا خاتمہ ممکن نہیں ہے کیونکہ حماس فلسطینی عوام کے عقائد میں پیوستہ ایک مضبوط نظریہ اور تحریک ہے۔
مغربی کنارے پر بڑے حملے کے نتائج
مغربی کنارے کے خلاف گزشتہ دو دہائیوں میں سب سے بڑا صہیونی حملہ کئی اہم پیغامات پر مشتمل ہے، جو درج ذیل ہیں:
1۔ صیہونیوں کی کھلی اور غیر معمولی نسل پرستی
فلسطینی سرزمین کو یہودی بنانا ہمیشہ سے صہیونیوں کے اہم مقاصد میں سے ایک رہا ہے۔ مغربی کنارے پر یہ بڑا حملہ صیہونی حکومت کے وزیر اتمار بن گویر کے مسجد الاقصی کے اندر ایک عبادت گاہ کی تعمیر کی ضرورت کے بارے میں ہرزہ سرائی کے ساتھ ہوا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی حکومت فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستانہ عزائم پر عمل پیرا ہے۔
2. صہیونی، عالمی اصولوں اور انسانی اقدار کو مسلسل نظرانداز کر رہے ہیں
مغربی کنارے کے شمال میں پناہ گزینوں کے خلاف صیہونیوں کی کارروائی اور ان کی جبری بے دخلی اور نسلی تطہیر کی دھمکی سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی حکومت کو عالمی اصولوں اور اقدار کی کوئی پرواہ نہیں ہے اور وہ عالمی اقدار اور بین الاقوامی ضابطوں کی مسلسل خلاف ورزی پر بھی زور دیتی ہے۔
فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے رہنما عزت الرشق نے مغربی کنارے سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے حوالے سے صیہونی وزیر خارجہ کے بیانات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کاٹز کے بیانات نسل پرستی کو پھیلانے کا اشتعال انگیز اقدام اور فلسطینیوں کے خلاف قتل و غارت گری اور نسلی تطہیر کے بین الاقوامی قوانین کی مسلسل خلاف ورزی پر اصرار ہے، جو بذات خود یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس رجیم کے دہشت گرد حکام انسانیت کے خلاف جرائم کے باوجود کسی بھی قسم کے مواخذے اور سزا سے محفوظ ہیں۔
3۔ صہیونیوں کے جرائم کو روکنے میں عالمی نظام کی بے بسی
مغربی کنارے کے خلاف بڑے پیمانے پر حملے کا ایک اہم پیغام یہ ہے کہ عالمی برادری صہیونی جرائم کو روکنے میں بے بس ہے۔
اگرچہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے متعدد مواقع پر اعلان کیا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ نسل کشی کی ایک بدترین مثال ہے، لیکن اقوام متحدہ کو صہیونی جرائم کو روکنے میں کوئی کامیابی نہیں ملی ہے۔ یہاں تک کہ سلامتی کونسل کی جانب سے اس حوالے سے کوئی مضبوط قرارداد بھی جاری نہیں کی گئی۔
اب صہیونیوں نے چونکہ عالمی برادری کی کمزوری کو بھانپ لیا ہے، ایک نئی جارحیت کا ارتکاب کیا ہے تاکہ کسی نہ کسی طرح یہ ظاہر کیا جا سکے کہ وہ بین الاقوامی نظام اور اس کی اقدار کی توہین کرتے رہیں گے۔
اقوام متحدہ کے تبصروں کے ساتھ ساتھ بعض مغربی حکام کے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی برادری امریکہ اور بعض یورپی ممالک کی شرمناک حمایت کی وجہ سے صیہونی حکومت کے جرائم کو روکنے اور اقوام متحدہ کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے میں مکمل طور پر بے بسی کا شکار ہے۔
4. امریکہ کی عالمی رسوائی اور بدنامی
اگرچہ صیہونی حکومت نے امریکہ کی حمایت سے وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کیا ہے لیکن امریکی حکومت نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے بظاہر کئی بار کوششیں کی ہیں۔ اب مغربی کنارے کے خلاف ایسے حالات میں بڑے پیمانے پر حملہ کیا جا رہا ہے جب امریکہ قطر اور مصر کے ساتھ مل کر دوحہ اور قاہرہ میں جنگ بندی کے مذاکرات کا تاثر دے رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ نیتن یاہو اور ان کی کابینہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ امریکہ میں جو بائیڈن کی حکومت صہیونیوں کو مذاکرات اور جنگ بندی پر مجبور کرنے کے لیے بہت کمزور ہے۔ صہیونیوں کا یہ طرز عمل آج کے عالمی نظام میں امریکہ کی "رسوائی اور بے اعتباری" کی واضح دستاویز ہے۔
نتیجہ کلام
مغربی کنارے کے شمال میں صہیونیوں کا بڑے پیمانے پر حملہ، جو کہ بنیادی طور پر مزاحمت کی عوامی حمایت کو نشانہ بنانے اور فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کے مقصد سے کیا جا رہا ہے، بلاشبہ فلسطینیوں کے خلاف ان کا یہ آخری حملہ نہیں ہوگا۔ اس جارحیت سے ثابت ہوتا ہے کہ صہیونی اب بھی عالمی سطح پر اپنے آپ کو سزا سے محفوظ سمجھتے ہیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ واشنگٹن حکومت کو بھی اہمیت نہیں دیتے۔
آپ کا تبصرہ