مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق "یمانیون ویب سائٹ" نے اپنی رپورٹ میں صیہونی حکومت کے ساتھ بعض نام نہاد عرب اور مسلمان ممالک کی تجارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ یہ تجارتی تبادلہ نہ صرف اسلامی اصولوں کی صریح خلاف ورزی اور فلسطین سے خیانت ہے بلکہ تل ابیب حکومت کے جرائم کی حمایت اور کسی نہ کسی طرح اس رجیم کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے شرمناک عمل کا حصہ بھی ہے۔
حالیہ برسوں میں غزہ پر صیہونی حکومت کے پے درپے حملوں کا ذکر کرتے ہوئے اس رپورٹ میں تاکید کی گئی کہ اس کی وجہ سے غزہ کے بنیادی اور اقتصادی ڈھانچے کو بڑے پیمانے پر نقصاں پہنچا ہے اور اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ کے 80 فیصد باشندوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ ان میں سے تقریباً 56 افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جب کہ غزہ خاص طور پر موجودہ صہیونی جنگ کے بعد اپنی بنیادی ضروریات جیسے خوراک، پانی اور بجلی کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔
یمانیون ویب سائٹ نے 40 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ عرب ممالک کی طرف سے صیہونی رجیم کی اقتصادی حمایت اس رجیم کو مزید جرائم پر ابھارتی ہے جس سے خطے کی سلامتی اور استحکام پر منفی اثرات ہوتے ہے۔
اس رپورٹ میں رواں سال کی پہلی ششماہی میں صیہونی رجیم اور 5 عرب ممالک کے درمیان تجارتی حجم میں اضافے کے اعدادوشمار فراہم کرنے والے صیہونی شماریات کے مرکز کی رپورٹ کا مزید حوالہ دیا گیا ہے کہ جس کے مطابق اسرائیل اور پانچ عرب ممالک متحدہ عرب امارات، مصر، اردن، بحرین اور مراکش کے درمیان تجارتی تبادلے میں مجموعی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ جس کا حجم 367 ملین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات نے صرف جولائی میں 272 ملین ڈالر سے زائد کا سامان مقبوضہ علاقوں میں بھیجا، جس میں گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
مقبوضہ علاقوں میں اپنی برآمدات میں 39 فیصد اضافے کے ساتھ مصر نے صیہونی حکومت کو 35 ملین ڈالر سے زیادہ کا سامان فراہم کیا ہے جب کہ اردن 35 ملین ڈالر کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے، حالانکہ مقبوضہ علاقوں کو اردن کی برآمدات گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 14 فیصد کم ہوئی ہیں۔
میڈیا میں غزہ اور فلسطین کی حمایت اور صیہونی حکومت سے دشمنی کے دعووں کے باوجود ترکی کی صیہونی رجیم کو نمایاں اقتصادی حمایت حاصل ہے۔ عرب ممالک کے ساتھ ترکی کے تجارتی حجم کا تقریباً 25% حیفہ کی بندرگاہ کے ذریعے ہوتا ہے، اور تل ابیب اور انقرہ کے درمیان تجارتی تبادلے کا حجم بھی بہت زیادہ ہے، اس لیے تل ابیب کو ترکی کے 5 اہم اقتصادی ذرائع میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
2016 میں صیہونی حکومت کے ساتھ ترکی کا تجارتی تبادلہ تقریباً 4.2 بلین ڈالر تھا جس میں حالیہ برسوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
اس وقت، ترک ایئر لائنز مقبوضہ علاقوں کے لیے ہفتہ وار 60 سے زیادہ پروازیں کرتی ہیں اور انقرہ اور تل ابیب کے درمیان مسافروں کے تبادلے کا حجم سالانہ 10 لاکھ مسافروں سے زیادہ ہے۔ عربی پوسٹ نیوز سائٹ نے پہلے اپنی ایک رپورٹ میں آگاہ کیا تھا کہ 442 عرب اشیاء اب بھی مقبوضہ علاقوں کو برآمد کی جاتی ہیں۔
آپ کا تبصرہ