مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ان ایام میں پوری دنیا سے مسلمان حج بیت اللہ کا وظیفہ ادا کرنے کے لئے مکہ اور مدینہ منورہ میں جمع ہوگئے ہیں۔ مسلمان اس عظیم پلیٹ فارم کو اپنے مسائل حل کرنے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔ فلسطین اس وقت پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس وجہ سے توقع کی جاتی ہے کہ حج کے دوران فلسطینیوں کے حق میں احتجاج کیا جائے تاہم سعودی حکام فلسطین کے حق میں احتجاج پر پابندی عائد کرچکے ہیں۔
اس حوالے سے مہر نیوز نے فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر صابر ابومریم سے گفتگو کی ہے۔
ڈاکٹر صابر ابومریم نے حج کی اہمیت اور فلسطین کے حق میں احتجاج کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حج مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کا پیغام دیتا ہے۔ پوری دنیا سے مسلمانوں کا مکہ میں جمع ہونا اتحاد کا عملی نمونہ ہے۔ اگر اس اہم موقع پر یک صدا ہوکر عالم اسلام کے مسائل کے لئے کوشش نہ کی جائے تو ایسا عمل بے مقصد ہے۔ حج کا معنی ہی یہی ہے کہ دنیا بھر سے جب لوگ جمع ہوں تو ایک لائن اف ایکشن ملے۔ آج فلسطین جو ہمارا قلب ہے اور ہمارے جسم کا ایک ٹکڑا ہے اس کا وجود خطرے میں ہے اور صہیونی حکومت وہاں پر نسل کشی کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سرائیل 76 سال سے وہاں پر ظلم کررہا ہے۔ ایسے میں ہر سال حج ہونا اور دنیا بھر سے مسلمانوں کا آکر صرف بیت اللہ کا طواف کر کے چلے جانا حج کے اصل اہداف کے خلاف ہے۔
پاکستانی معروف سیاسی و سماجی رہنما کا کہنا ہے کہ حج ہمیں دنیا کے شیاطین کے سامنے کھڑے ہونا سکھاتا ہے جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس وقت ان کو قربانی کا حکم ملا اور وہ اپنے بیٹے کو قربان کرنے جا رہے تھے تو راستے میں کئی مرتبہ شیطان آیا تو انہوں نے پتھر مارے اور مقابلہ کیا۔ آج کا شیطان امریکہ، اس کی ناجائز اولاد اسرائیل، مغربی حکومتیں اور برطانیہ ہے تو اگر وہاں پردنیا بھر سے مسلمان جمع ہو کر وحدت کے ساتھ کھڑے ہوں اور ایک آواز ہو کر اگر دشمنان اسلام اور دشمنان فلسطین کے خلاف اواز لگائیں تو میں سمجھتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین جلد حل ہو سکتا ہے اور فلسطینیوں کو انصاف مل سکتا ہے لہذا سعودی حکومت کی طرف سے یہ اعلان کہ وہاں پر فلسطین کی کوئی بات نہیں کی جائے گی اس سے براہ راست اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ یہ امریکی اسلام کی پرچار کیا جا رہا ہے۔ حج ہمیں مظلوموں کا ساتھ دینے کی تعلیم دیتا ہے لہذا امریکی اسلام پر چلنے والی سعودی حکومت کے فیصلے کی سخت مذمت کی جاتی ہیں۔ اس وقت امریکہ، یورپ، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں لوگ سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں۔ فلسطینی مزاحمت نے پوری دنیا کو بیدار کیا اور اگر ایسے موقع پر کوئی یہ کہے کہ وہاں پر فلسطین کی بات نہ ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہم مسلم امہ نہیں بلکہ بھیڑ بکریوں کا ایک ریوڑ ہیں جو اپنی مرضی سے کبھی ادھر چلتا ہے اور کبھی ادھر چلتا ہے۔
صہیونی حکومت کو داخلی سطح پر درپیش مشکلات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ صہیونی حکومت شکست کا شکار ہوچکی ہے۔ وہ بدترین حالات میں ہے چنانچہ امام خمینی کی برسی کے موقع پر رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای صاحب نے بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا۔ انہوں نے معروف صہیونی مبصرین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر صہیونیوں کے درمیان اختلافات سامنے آجائیں تو شاید 40 لاکھ صہیونی آباد کار فلسطین سے فرار کر جائیں۔ طوفان اقصی کے بعد صہیونی حکام کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں جس میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ سیاسی بحران کا یہ عالم ہے کہ اہم وزراء نے استعفی دینا شروع کردیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ صہیونی حکومت کی بہت بڑی شکست کا ایک اعلان ہے۔ اس سے پہلے نتن یاہو لبنان میں حزب اللہ پر حملے کی دھمکی دے رہے تھے لیکن حساس مرحلے پر دفاعی کابینہ کے وزراء کا استعفی دے کر گھر چلے جانا ان کی شکست کا کھلا اعتراف ہے۔ اب اسرائیل اس قابل نہیں کہ وہ غزہ میں حماس کا مقابلہ کر سکے یا جنوبی لبنان میں حزب اللہ کا مقابلہ کرسکے چنانچہ ایت اللہ خامنہ ای صاحب نے فرمایا تھا کہ اسرائیل ڈوب رہا ہے۔ یہ جو حالات ہم دیکھ رہے ہیں وہ صہیونی حکومت کے خاتمے کا اشارہ دے رہے ہیں۔
آپ کا تبصرہ