مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، تہران میں "غزہ میں جاری اسرائیلی جرائم کے حوالے سے بین الاقوامی عدالتوں کے فیصلوں پر عمل درآمد کے چیلنجز" کے عنوان سے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں تہران کی یونیورسٹیوں کے پروفیسرز اور جنوبی افریقہ، لبنان اور الجزائر کے بین الاقوامی وکلاء نے گفتگو کی۔
7 اکتوبر 2023ء کو حماس کے آپریشن طوفان الاقصی کے بعد قابض صیہونی حکومت نے غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے قتل عام اور نسل کشی کا سلسلہ شروع کیا جو ہنوز جاری ہے۔
قابض فوج نے غزہ میں ایندھن، خوراک، پینے کے پانی اور ادویات کے داخلے تک کو روک کر اس پٹی کو مکمل طور پر گھیرے میں لے لیا۔
جنوری میں، جنوبی افریقہ نے صیہونی حکومت کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف میں نسل کش کی شکایت درج کروائی اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں اس عدالت نے نے تل ابیب کو حکم دیا کہ وہ جنوری کے آخر میں عارضی احکام جاری کرکے نسل کشی کنونشن کے تحت کسی بھی غیر قانونی اقدام کو روکنے کے لئے تمام ضروری اقدامات کرے۔
اس کانفرنس کے پہلے مقرر کی حیثیت سے جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے وکیل "زیاد ابراہیم پٹیل" جو ہیگ میں اسرائیل کے خلاف اس ملک کے مقدمے کے معاملے میں قانونی مشیر بھی ہیں، نے بین الاقوامی قوانین کے نفاذ کی راہ میں موجود چیلنجوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا: ہمیں صیہونی رجیم کے جرائم کو روکنے کے لئے ملکی قوانین کی صلاحیتوں کو استعمال کرنا ہوگا۔
انہوں نے تاکید کی: ہمیں غزہ میں جاری نسل کشی کی طرف دنیا کی رائے عامہ کو متوجہ کرنے کے لئے قومی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہیے اور بین الاقوامی مہم کے ذریعے اسرائیل کو عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کے لئے مجبور کرنا چاہیے۔
پٹیل نے واضح کیا: آزاد ممالک کو بھی ملکی عدالتوں کے ذریعے فلسطینیوں کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اعلان کرنا چاہیے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل کی حمایت کرنے والے ممالک میں لوگ صیہونی حکومت کے خلاف کھل کر احتجاج کرتے ہیں اور ان دنوں جو طلبہ تحریکیں چل رہی ہیں وہ صرف تبدیلیوں کا آغاز ہیں اور بہت ہی مختصر عرصے میں ہم دنیا میں جلد بڑی تبدیلیوں کا مشاہدہ کریں گے۔ صیہونی حکومت کا سیاسی اور اقتصادی بائیکاٹ ان موثر طریقوں میں سے ایک ہے جس کے ذریعے ممالک اسرائیل پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ نیز اسرائیل کو اسلحہ اور فوجی امداد بھیجنا بھی بند کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا: فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اقوام متحدہ کی قرارداد کی خلاف ورزی اور فلسطینیوں کا اجتماعی قتل عام اور جنگی جرم ہے۔ ہمیں اسرائیل کے دہشت گردانہ اقدامات کو برملا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے مطابق تمام رکن ممالک کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت اپنی ذمہ داریوں اور قانونی تقاضوں پر عمل درآمد کرے۔
تہران کانفرنس کے دوسرے مقرر لبنان یونیورسٹی کے وکیل اور پروفیسر سامر ماہر عبداللہ تھے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مزاحمتی محور اور فلسطینی عوام کو ہر ممکن طریقے سے اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے کیونکہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تمام بین الاقوامی ضابطوں کے خلاف ہے۔ سات اکتوبر کے بعد مزاحمت نے متعدد صیہونیوں کو پکڑ کر ایک نیا چیلنج پیدا کیا۔
انہوں نے اس بات کو سراہا کہ جنوبی افریقہ نے نسل کشی کی ممانعت کے کنونشن کے مطابق موثر کارروائی کی۔
سامر ماہر نے نشاندہی کی کہ ان جرائم کا اصل ذمہ دار امریکہ ہے جو اسرائیل کو فوجی امداد فراہم کرتا ہے۔ عالمی عدالت انصاف کا عارضی حکم مزاحمت کے محور اور صیہونیت مخالف ممالک کی فتح تھا۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت فیصلے جاری کرنے کے قابل ہے کیونکہ فلسطین اس عدالت کا رکن ہے اور جن جرائم کی ہم بات کر رہے ہیں وہ فلسطینی سرزمین میں ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: استغاثہ کی تحقیقات کی بنیاد پر توقع ہے کہ نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے جائیں گے۔ خطے کے ممالک بالخصوص برکس کے رکن ممالک فلسطین کی حمایت میں ہم آہنگی کے ذریعے تعمیری اور موئثر اقدامات کر سکتے ہیں۔
ماہر عبد اللہ نے مزید کہا: شام میں اسرائیل کے جارحیت کے جواب میں ایران کی فوجی کارروائی اور ردعمل بروقت اور مناسب تھا۔ مزاحمتی محور نے عراق، یمن اور لبنان میں بروقت کارروائیوں سے اپنی تاثیر ثابت کی۔
انہوں نے زور دے کر کہا: نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے لیے عالمی عدالت انصاف کے تمام اراکین کا تعاون درکار ہے۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ عالمی نظام جلد ہی نمایاں طور پر تبدیل ہو جائے گا۔
مسئلہ فلسطین کی عالمی عدالت انصاف میں جاری صورت حال کے جائزے کی اس کانفرنس کے تیسرے مقرر انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن کے رکن اور الجزائر یونیورسٹی کے پروفیسر عمر راوبحی تھے۔
ان کے بقول غزہ میں جنگی جرائم کے مقدمے کی پیروی میں ناکامی کے باعث بین الاقوامی عدالت انصاف کے پراسیکیوٹر کی برطرفی ایک اہم مسئلہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا: عالمی عدالت انصاف کا دوہرا معیار، پراسیکیوٹر کا مقدمہ چلانے میں اس عدالت کی حیثیت اور کردار کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ جب کہ آئین روم کے آرٹیکل 46 کے مطابق پراسیکیوٹر پر مقدمہ چلانے میں ناکامی اور رفح میں ہونے والے جرائم کو نظر انداز کرنے پر مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ اگر اس عدالت کے دو تہائی ارکان متفق ہو جائیں تو مقدمے کے پراسیکیوٹر کو بھی برخاست کیا جا سکتا ہے۔
آپ کا تبصرہ