مہر خبررساں ایجنسی،بین الاقوامی ڈیسک؛ شہید سلیمانی نے اپنی تقاریر اور گفتگو کے دوران فلسطین کے مسئلے پر بہت زیادہ توجہ دی۔ ان کا عقیدہ تھا کہ فلسطین اور مسجد اقصی کے بارے میں ہر مسلمان کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہئے اور فلسطینی عوام کے دفاع کے لئے خود کو آمادہ رکھنا چاہئے۔
شہید سلیمانی بڑے بھائی کی حیثیت سے فلسطینی رہنماوں کے ساتھ رابطہ رکھتے تھے۔
القدس فورس میں اپنی تعییناتی کے دوران انہوں نے فلسطینی مقاومت کو دفاعی اور فکری طور پر مسلح کرنے میں اہم کردار ادا کیا اسی وجہ سے مقاومتی رہنماوں نے ان کو شہید قدس کا لقب دیا۔
مہر نیوز کے ساتھ گفتگو کے دوران تہران میں حماس کے نمائندے خالد قدومی نے کہا کہ فلسطین کا دفاع شہید سلیمانی کی آرزو تھی اور وہ ہمیشہ مقاومتی رہنماوں کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔
شہید سلیمانی کی چوتھی برسی کے موقع پر حماس کے نمائندے نے کہا کہ وہ فلسطین میں مقاومت اسلامی اور مجاہدین کے لئے بڑے بھائی کی حیثیت رکھتے تھے۔ ذاتی طور پر ایک مومن اور مضبوط عقیدے کے مالک ہونے کے ساتھ شہید سلیمانی سیاسی، دفاعی اور دینی حوالے سے بھی برجستہ شخصیت کے مالک تھے۔ ہم نے فلسطین میں ان کے فوجی تجربے اور سیاسی تفکر سے کئی سال استفادہ کیا۔ وہ ہمارے خاندانوں کا حصہ تھے۔
انہوں نے کئی پہلووں سے فلسطینی مجاہدین کی مدد کی۔ دفاعی تجربات منتقل کرنے کے علاوہ مقاومت کو مسلح کیا جس سے فلسطینی مقاومت نے بہت ترقی کی۔ انہوں نے کئی مرتبہ فلسطین کا دورہ کیا۔ ان کی شہادت کے بعد ان کی کمی شدت سے محسوس کی گئی۔ اگرچہ ان کے جانشین بھی اس راستے پر گامزن ہیں لیکن میری نظر ہر کوئی اپنا مخصوص کردار ادا کرتا ہے۔ اہم شخصیات کا کردار ان تک محدود ہوتا ہے لہذا کوئی اور اس کی جگہ نہیں لے سکتا ہے۔
شہید سلیمانی کے مقاومتی رہنماوں کے ساتھ روابط کے بارے میں حماس کے نمائندے نے کہا کہ شہید سلیمانی کے مقاومتی رہنماوں کے ساتھ روابط کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ 1993 سے حماس کے رہنماوں کی جلاوطنی کا سلسلہ شروع ہوا اسی سال سے حماس اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے درمیان روابط کا آغاز ہوا۔
اس دور میں ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی، ڈاکٹر محمود زہار اور اسماعیل ہنیہ جیسے رہنما جلاوطن ہوئے اور بعض جنوبی لبنان چلے گئے۔ اس وقت سے حماس اور سپاہ پاسداران کے درمیان تعلقات شروع ہوئے۔ 1998 میں شہید سلیمانی القدس فورس کے سربراہ بن گئے۔ اس کے بعد حماس اور ان کے تعلقات بہت اچھے تھے۔
شہید سلیمانی نے مختلف مواقع پر حماس اور فلسطینی مجاہدین کی مدد کی۔ غزہ کی 22 روزہ جنگ کے دوران انہوں نے ہماری پشت پناہی کی۔
گویا میدان جنگ میں فلسطینی مجاہدین کو ملنے والی کامیابیوں میں وہ شریک تھے۔ فلسطین مقاومتی تحریکوں نے ان کے تجربات سے بہت استفادہ کیا۔
طوفان الاقصی میں فلسطینی مجاہدین کو ملنے والی کامیابیوں میں شہید سلیمانی کے کردار کے حوالے سے خالد قدومی نے کہا ہے کہ شہید سلیمانی کے تجربے فلسطینی نوجوان نسل تک منتقل ہوگئے ہیں۔ جوان نسل نے صہیونیوں کے مقابلے کا عزم و حوصلہ ان سے وراثت میں لیا ہے۔ ہم اپنی کامیابیوں کو شہید سلیمانی کی محنتوں کی مرہون منت سمجھتے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ شہید سلیمانی کے شاگردوں کے ذریعے صہیونی حکومت کی نابودی اور بیت المقدس کی آزادی تک یہ سفر جاری رہے۔
آپ کا تبصرہ