مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ریاض میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے ہنگامی اجلاس میں اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے صدر رئیسی نے غزہ کے خلاف اسرائیل کی وحشیانہ جارحیت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ غاصب رجیم اس وقت انسانیت کی تاریخ میں "سب سے گھناؤنے جرائم" کا ارتکاب کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ او آئی سی ایک متحد ادارے کے طور پر کام کر سکتی ہے جو اسلامی اداروں کو اسرائیل کے خلاف مربوط کارروائی کرنے میں مدد دیتی ہے۔ صدر نے کہا کہ اس اہم حقیقت کو سمجھتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران نے اچھی ہمسائیگی اور علاقائی اتحاد کی پالیسی کے تحت مسلم ممالک سے تعلقات مستحکم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
صدر رئیسی نے علاقائی رہنماؤں کو اس ہنگامی صورتحال کے بارے میں خبردار کیا جس کا آج عالم اسلام کو سامنا ہے۔
انہوں نے کہا، "آج عمل کا دن ہے لہذا علاقائی ریاستوں کو مسجد اقصیٰ کے دفاع کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کا لانا چاہیے۔
"گزشتہ پانچ ہفتوں میں غزہ اور مغربی کنارے میں جو کچھ ہوا ہے وہ اخلاقیات، قانون اور انسانیت کے لیے شرم کا باعث ہے۔ غزہ مظلوم لیکن مقتدر اور بہادر ہے۔ زخمی لیکن باعث افتخار ہے؛ پچھلی دو دہائیوں سے، مکمل بحری، زمینی اور فضائی ناکہ بندی کی وجہ سے اسے سب سے بڑی کھلی جیل کے طور پر جانا جاتا ہے اس کے باوجود، غزہ میں فلسطینی استقامت دکھانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
ایرانی صدر نے روشنی ڈالی کہ پٹی کے خلاف اسرائیل کی جاری بمباری بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ کس طرح صیہونی رجیم شہری علاقوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے میں سفید فاسفورس بموں اور دیگر ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال کر رہی ہے۔
اسرائیلی حملوں کے دوران اب تک 11 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، مرنے والوں میں ہزاروں بچے بھی شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 3000 شہری بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جن کے بچنے کے امکانات کم ہیں۔
رئیسی نے مزید کہا کہ "اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت کے وحشیانہ محاصرے کی وجہ سے ادویات تک رسائی اور بیماریوں کے پھیلاؤ کی وجہ سے اپنی جانیں گنوانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایرانی صدر نے مزید کہا کہ امریکہ ان جرائم میں اسرائیل کا سب سے بڑا ساتھی ہے۔
"امریکہ نے صیہونی حکومت کو غزہ کے نہتے لوگوں کے خلاف مجرمانہ کارروائیوں کی ترغیب دی اور اسے ایک جائز دفاع قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے حقوق پر غاصبانہ قبضہ کرنے والی قابض افواج کی طرف سے جائز دفاع کا دعویٰ تاریخ کی تلخ ستم ظریفیوں میں سے ایک ہے جو بین الاقوامی معیارات سے مطابقت نہیں رکھتا۔
رئیسی نے واضح کیا کہ کس طرح امریکہ غزہ کے خلاف جنگ میں اسرائیل کی مدد کر رہا ہے، جس میں خلیج فارس اور بحیرہ روم میں فوج اور فوجی ساز و سامان کی روانگی، صیہونی رجیم کو مہلک ہتھیاروں کی فراہمی، اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی کوششوں کو روکنا شامل ہے۔
سب سے زیادہ تباہ کن کردار امریکہ کا ہے۔ تمام مسائل امریکیوں کی وجہ سے ہیں۔ افغانستان، عراق، شام اور دیگر اسلامی ممالک سمیت دنیا بھر میں لاکھوں انسانوں کا قتل عام امریکہ کے سبب ہوا۔ صدر نے کہا کہ امریکہ دنیا کی تمام بین الاقوامی تنظیموں کو غیر فعال کر کے اس تنازعے کو ہوا دے رہا ہے۔
ایرانی صدر نے یہ تجویز بھی دی کہ فلسطین میں دریا اور سمندر کے درمیان رہنے والے تمام لوگوں کی شرکت سے ریفرنڈم کرایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہر فلسطینی مسلمان، یہودی اور عیسائی کو ریفرنڈم میں حصہ لینے کی اجازت دی جانی چاہیے، جس سے فلسطین میں دہائیوں سے جاری تنازعے کا جمہوری خاتمہ ہو گا۔
انہوں نے اپنی تقریر کا اختتام غزہ کے بحران کے حل کے لیے اقدامات کا ایک مجموعہ تجویز کرتے ہوئے کیا۔ مجوزہ اقدامات درج ذیل ہیں۔
1- غزہ کے عوام کے قتل عام اور شہریوں پر اندھے حملوں کا خاتمہ
2- غزہ کی انسانی ناکہ بندی کو مکمل طور پر ہٹانا اور مصر کے تعاون سے رفح بارڈر کراسنگ کو فوری اور غیر مشروط طور پر دوبارہ کھولنا
3- غزہ سے صیہونی فوج کا فوری انخلاء
4- صیہونی رجیم کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعلقات منقطع کرنا
5- اسرائیل کی فوج کو دہشت گرد قرار دینا
6- اسرائیل اور امریکہ کے مجرم رہنماؤں کے خلاف مقدمہ چلانے اور سزا دینے کے لیے بین الاقوامی عدالت کا قیام
7- غزہ کی تعمیر نو کے لیے فنڈنگ
8- مختلف اسلامی ممالک سے غزہ میں فلسطینی عوام کے لیے انسانی امداد بھیجنا
9- رکن ممالک کے سرکاری کلینڈروں میں عرب الاہلی ہسپتال پر بمباری کے دن کو نسل کشی کا دن قرار دینا
10- اگر اسرائیل کے نہتے جرائم اور حکومت کے طرز عمل کے لیے واشنگٹن کی حمایت جاری رہے تو غزہ کے لوگوں کو مسلح کرنا۔
"غزہ جنگ کا فوری خاتمہ"
عرب لیگ اور او آئی سی کے رہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے محصور غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی جنگ فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
سعودی ولی عہد نے کہا: ہمیں یقین ہے کہ امن کی واحد وجہ اسرائیلی قبضے اور غیر قانونی بستیوں کا خاتمہ، اور فلسطینی عوام کے قائم کردہ حقوق کی بحالی اور 1967 کی سرحدوں پر فلسطینی ریاست کا قیام ہے، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو"۔
بن سلمان نے غزہ میں بڑے پیمانے پر انسانی بحران کو روکنے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی ناکامی کی بھی نشاندہی کی۔
امیر قطر کی بین الاقوامی بے عملی کی مذمت
قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے دنیا بھر کی بین الاقوامی تنظیموں اور حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے مصائب کا خاموشی سے تماشا کر رہے ہیں جب کہ اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
امیر قطر نے کہا کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہر سطح پر ایک حقیقی خطرہ ہے۔ یہ بے مثال واقعات ہیں۔ ہسپتالوں پر بمباری کیسے ایک عام حملہ بن جاتی ہے اس جھوٹے الزامات کے تحت کہ وہاں سرنگیں اور فوجی تنصیبات ہیں؟
انہوں نے انسانی حقوق کے محافظ کے طور پر ظاہر کرتے ہوئے بین الاقوامی قانون کی تعمیل میں ناکامی پر دنیا بھر کے لوگوں اور ریاستوں کی مذمت کی۔
'خطہ بڑے تنازع کی طرف بڑھ سکتا ہے'
اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے اسرائیلی جرائم کی روک تھام کے سلسلے میں دنیا کو علاقائی جنگ کے امکانات سے خبردار کرتے ہوئے کہا: "ہم آج غزہ اور اس کے لوگوں کے لیے اجلاس طلب کرتے ہیں کیونکہ وہ موت اور تباہی کا سامنا کر رہے ہیں جسے فوری طور پر رکنا چاہیے، ورنہ ہمارا خطہ ایک بڑے تنازع کی طرف بڑھ جائے گا جس کی قیمت دونوں طرف کے معصوم لوگ ادا کریں گے، اور جس کے نتائج سے پوری دنیا متاثر ہو گی۔
انہوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے ظلم و ستم کا آغاز 7 اکتوبر سے نہیں ہوا تھا، واضح کیا کہ اسرائیلی حکومت کے جرائم سات دہائیوں پہلے شروع ہوئے تھے اور اب بھی جاری ہیں۔
بشار الاسد نے اسرائیل کے ساتھ سیاسی عمل کو روکنے پر زور دیا
شام کے صدر بشار الاسد نے علاقائی رہنماؤں سے کہا کہ اسرائیلی حکومت کے ساتھ کسی بھی سیاسی عمل کو روک دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ قابض اسرائیل کے ساتھ مبینہ امن عمل کی وجہ سے فلسطین کی صورتحال مزید خراب اور جابرانہ ہو گئی ہے۔
انہوں نے فلسطینی عوام کے خلاف قابض اسرائیل کے جرائم کو روکنے کے لیے اجتماعی کارروائی کی اہمیت پر زور دیا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کے لیے مغرب کی غیر واضح حمایت نے اس رجیم کو بین الاقوامی قوانین کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی کرنے پر ابھارا ہے۔
انہوں نے سمٹ میں شریک ممالک پر زور دیا کہ وہ اتحاد سے کام کرتے ہوئے اسرائیلی جرائم کا سدباب کریں۔
'اسرائیل مغرب کے بگڑے ہوئے بچے کی طرح ضد کر رہا ہے'
ترکی کے صدر نے سربراہی اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے مغربی حکومتوں کی اسرائیل کے خلاف غیر متزلزل حمایت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ رجیم اب "مغرب کے بگڑے ہوئے بچے" کی طرح برتاو کر رہی ہے۔
رجب طیب اردگان نے کہا کہ یہ شرم کی بات ہے کہ مغربی ممالک جو ہمیشہ انسانی حقوق اور آزادی کی بات کرتے ہیں، فلسطین میں ہونے والے قتل عام پر خاموش ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا اب تاریخ میں بے مثال بربریت کا سامنا کر رہی ہے، انہوں نے غزہ میں ہسپتالوں، سکولوں اور دیگر شہری مقامات پر بمباری پر صدمے کا اظہار کیا۔
صدر نے تجویز پیش کی کہ "ہم سمجھتے ہیں کہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے اسلامی تعاون تنظیم کے اندر ایک فنڈ قائم کیا جانا چاہیے۔"
عراق نے غزہ جنگ پر 'سنجیدہ کارروائی' کا مطالبہ کیا
عراقی صدر عبداللطیف راشد نے بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزیوں بالخصوص غزہ کی جنگ کے دوران غیر فوجی تنصیبات اور ہسپتالوں پر بمباری کی شدید مذمت کی۔
انہوں نے عالمی برادری سے مہلک حملوں کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کا مقصد فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنا، فلسطینی علاقوں کو یہودی بنانا، نسلی امتیاز اور آباد کاری کی پالیسیوں کو نافذ کرنا ہے اور یہ تمام حرکتیں کسی صورت قابل قبول نہیں ہیں۔ عراق کے صدر نے مزید کہا کہ ان کے ملک نے ہمیشہ مسئلہ فلسطین کو بہت اہمیت دی ہے۔
"غزہ کے مکینوں کی نقل مکانی کو روکا جائے"
مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے غزہ میں فوری، غیر مشروط اور پائیدار جنگ بندی کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین کے اندر یا باہر کسی بھی جگہ پر جبری نقل مکانی کو روکنے کا مطالبہ کیا۔
اسرائیل اور امریکہ مبینہ طور پر مصر پر غزہ کی پٹی کی 2.3 ملین آبادی کو لے کر جزیرہ نما سینائی میں آباد کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ قاہرہ نے ایسی درخواستوں کی شدید مخالفت کی ہے۔
عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے دوران، سیسی نے غزہ کی پٹی کے خلاف جاری جارحیت اور "غزہ کے لوگوں کے وحشیانہ قتل اور محاصرے اور ان کی طرف سے ہونے والے غیر انسانی اقدامات" پر بھی تنقید کی۔
لبنان نے جھڑپوں کے بعد سربراہی اجلاس میں شرکت کی
لبنان کے نگراں وزیر اعظم نجیب میقاتی بھی غیر معمولی مشترکہ عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے ہفتے کے روز سعودی عرب پہنچے۔
سربراہی اجلاس میں لبنانی وفد میں نگراں وزیر خارجہ عبداللہ بو حبیب، نگران وزیر زراعت عباس حاج حسن، سعودی عرب میں لبنان کے سفیر فوزی کبارا اور مصر میں لبنان کے سفیر علی حلبی بھی شامل تھے۔
لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ 8 اکتوبر سے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی ٹھکانوں پر حملے کر رہی ہے۔ اس کی صیہونی رجیم کے خلاف تازہ ترین لڑائی میں اب تک درجنوں مجاہدین شہید ہو چکے ہیں۔
صادق فریدون آبادی
بشکریہ تہران ٹائمز۔
آپ کا تبصرہ