مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عراق کے الفتح اتحاد کے رہنما علی الزبیدی نے المعلومہ نیوز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ صوبہ کرکوک میں جاری کشیدگی کو امریکہ کا سیاسی کھیل سمجھا جاتا ہے جس کا مقصد صوبے میں کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کا غلبہ اور امریکی اثر و رسوخ کو بحال کرنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: بارزانی کی جماعت نے 2017 میں کرکوک صوبے کی آزادی کے لئے ریفرنڈم کے انعقاد کا کارڈ کھیلا لیکن اب یہ موثر نہیں رہا۔
کرکوک صوبے کے مسئلے کے پیچھے کئی عوامل ہیں اور عراق کو جس سیاسی، اقتصادی یا سیکورٹی بحران کا سامنا ہے اس کا بنیادی سبب امریکہ اور اس کے کرائے کے فوجی ہیں۔
الزبیدی نے کہا: کرکوک ایک عراقی صوبہ ہے اور اس کے تمام باشندوں کو تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔
اس سے قبل بعض عراقی سیاست دانوں نے کہا تھا کہ شام کے اندر قابض امریکی فوجیوں کی نقل و حرکت، کرکوک صوبے کے حالیہ تنازعے کے عین وقت ہوئی تھی جو کہ مشکوک ہے۔
کیونکہ امریکہ کی طرف سے نئے منصوبے بنائے گئے تھے تاکہ وہاں کے باشندوں کو نشانہ بنا کر کرکو صوبے کو تقسیم کیا جا سکے۔
ادھر عراق کے سیاسی تجزیہ کار ہیثم الخز علی نے بھی اس بات پر زور دیا کہ کرکوک صوبے کی سیکورٹی فورسز کبھی بھی سیاسی اختلافات کو اس صوبے میں مسلح تصادم کا باعث نہیں بننے دیں گی، اس لئے کہ عراق مزید تنازعات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
اتوار کے روز عراق کے وزیر اعظم محمد شیاع السودانی نے ایک بار پھر کرکوک میں سیکورٹی کے واقعے کے ذمہ داروں کو سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: "اس میں کوئی شک نہیں کہ تحقیقات کی تکمیل اور افسوسناک واقعات کے انکشاف کے بعد، ان تمام عناصر کو سزا دی جائے گی جو اس واقعے میں لوگوں کو قتل اور زخمی کرنے میں ملوث تھے۔"
اتوار کو عراقی حکومت کے اجلاس میں اپنے ریمارکس میں السوڈانی نے شہری امن کو برقرار رکھنے اور کسی بھی تنازع سے بچنے کے لیے کرکوک میں تمام سیاسی جماعتوں کے مشترکہ عزم کی ضرورت پر زور دیا۔
واضح رہے کہ عراق کے تیل اور گیس کے ذخائر سے مالا مال حساس شہر کرکوک میں ہفتے کی رات سے حالات کشیدہ ہی۔
کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب کردستان ڈیموکریٹک پارٹی (KDP) کے دفاتر کو خالی کر کے ایک بار پھر اس پارٹی کے مقامی نمائندوں کو واپس کر دیا گیا، جس کے ردعمل میں عرب اور ترک مخالفین کے ایک گروپ نے ان دفاتر کے سامنے جمع ہو کر مذکورہ فیصلے کی مخالفت کی اور مظاہرین نے خیمے لگا کر سڑک بلاک کر کے کشیدگی کو ہوا دی۔ لیکن اس دوران مقامی حکام کے مذاکرات کامیاب ہوئے اور کرکوک کے قائم مقام گورنر راکان سعید الجبوری نے اعلان کیا کہ کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کے دفاتر کو خالی کرانے کا عمل فی الحال روک دیا گیا ہے اور مظاہرین نے اپنے خیمے ہٹا کر کرکوک اور اربیل کے درمیان سڑک کھولنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
راکان جبوری نے عراقی وزیر اعظم محمد شیاع السوڈانی سے ٹیلی فونک رابطہ کرنے کے بعد مظاہرین سے بات چیت کی، جس کے بعد مظاہرین نے دھرنا ختم کیا اور سڑک کو ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا۔
آپ کا تبصرہ