مہر خبررساں ایجنسی نے یمنی انصار اللہ کی سرکاری ویب سائٹ کا حوالہ دیتے ہوئے یمن کی نیشنل سالویشن گورنمنٹ کے خارجہ امور کے نائب وزیر "حسین العزی" کا بیان نقل کیا ہے جس میں انہوں نے بحیرہ احمر میں داخل ہونے والی امریکی افواج کو فیصلہ کن پیغام دیا ہے۔
حسین العزی نے انٹرنیٹ پر ایک پوسٹ میں اعلان کیا: "بین الاقوامی امن اور سلامتی کی خاطر اور بحیرہ احمر میں جہاز رانی کی سکیورٹی کو برقرار رکھنے کے لیے، امریکی افواج کو بحیرہ احمر میں ہمارے علاقائی پانیوں سے ہٹ جانا چاہیے، کیونکہ کوئی بھی ہمارے علاقائی پانیوں میں آئے گا مطلب سب سے طویل اور شدید جنگ کا آغاز ہو سکتا ہے۔
یمن کی انصار اللہ کی سرکاری ویب سائٹ مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ خطے میں کشیدگی پیدا کرنے کے لیے اقدامات کرتا رہتا ہے اور اس کے یہ اقدامات یمن میں امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
یمن کے انصار اللہ انفارمیشن سینٹر کے مطابق، امریکہ نے بحیرہ احمر میں مزید فوجی بھیجنے کا اعلان کیا ہے، اور یہ یمن کے علاقائی پانیوں، جزائر کے لیے براہ راست خطرہ ہے، خاص طور پر جب سے امریکہ کی طرف سے یمنی عوام کو گھیرے نے کے لئے
تجاوزات جاری ہیں۔
امریکی پانچویں بحری بیڑے کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 3 ہزار سے زیادہ بحری افواج اتوار کو مشرق وسطیٰ پہنچی ہیں اور بحری جہاز USS Bataan اور کارٹر ہال نامی ہارپرز فیری کلاس لینڈنگ کرافٹ (USS Carter Hall) بحیرہ احمر میں داخل ہوئے۔
یو ایس ایس باتان ایک مشترکہ حملہ آور جہاز ہے جو فکسڈ اور روٹری ونگ ہوائی جہاز کے ساتھ ساتھ فوجیوں کی تعیناتی کشتیاں بھی لے جا سکتا ہے۔
ادھر شراق الاوسط اخبار کی رپورٹ کے مطابق، امریکی پانچویں بحری بیڑے نے تصدیق کی ہے کہ 3 ہزار سے زیادہ بحری ٹروپس اور میرینز مشرق وسطیٰ کے علاقے میں پہنچ چکے ہیں رپورٹ کے مطابق امریکی بحریہ کے 5ویں بحری بیڑے نے پیر کے روز ایک بیان میں اعلان کیا: "ایک amphibious حملہ آور جہاز سویز کینال سے ہو کر بحیرہ احمر تک گیا۔"
بیان میں مزید کہا گیا ہے: "امبیبیئس جہاز میں 24 سے زیادہ ہیلی کاپٹر اور فکسڈ ونگ والے طیارے شامل ہیں، جن میں عمودی پرواز کرنے والے اوسپرے قسم کے طیارے اور ہیریئر طیارے شامل ہیں۔"
امریکی 5ویں بحری بیڑے کے ترجمان ٹام ہاکنز نے کہا کہ "یہ خطے میں میری ٹائم سیکیورٹی کے لیے ہمارے مضبوط عزم کی علامت ہے۔" اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر، ہم ایران کے اقدامات سے پیدا ہونے والی علاقائی کشیدگی کو کم کرنے اور غیر مستحکم کرنے کے اقدامات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔"
امریکہ نے خطے میں اپنی افواج کو مضبوط کرنے کے بہانے گزشتہ ماہ جنگی جہاز اور F-35 اور F-16 لڑاکا طیاروں کی تعیناتی کا اعلان کیا تھا۔
قبل ازیں انصاراللہ کے سیاسی دفتر کے رکن عبدالوہاب یحیی المحبشی نے یمن میں قیام امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں اپنے تبصرے میں اس بات پر زور دیا تھا کہ سعودی سیاسی نظام کو سعودی عرب کے مفادات کے مطابق فیصلے کرنے میں بہت کم آزادی حاصل ہے اور زیادہ تر معاملات میں سعودی عرب کے سیاسی نظام کو دباو کا سامنا ہے۔
سعودی زیادہ تر معاملات میں وائٹ ہاؤس کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہیں اور امریکہ ہی یمن میں جنگ کے خاتمے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ سعودی حکام 2024 کے انتخابات میں ریپبلکنز کی واپسی کے منتظر ہیں اور اگلے مرحلے کے آثار ظاہر ہونے سے پہلے امریکی حکومت کے دباو سے نکل جانے سے خوف زدہ ہیں۔
آپ کا تبصرہ