مہر خبررساں ایجنسی: 5 فروری 2003 کو اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول سلامتی کونسل کے اجلاس میں ایک چھوٹی سی شیشے کی بوتل میں انڈے کے چھلکے پر مشتمل سفید پاؤڈر رکھ کر لائے تا کہ معاصر دنیا کی تاریخ کے سب سے بڑے جھوٹوں میں سے ایک جھوٹ سلامتی کونسل کے ممبران سامنے پیش کر سکیں!
اس اجلاس میں کولن پاول نے بڑے آب و تاب کے ساتھ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم جو کچھ آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں وہ مضبوط انٹیلی جنس سرگرمیوں پر مبنی حقائق اور شواہد ہیں، جو ظاہر کرتے ہیں کہ عراق کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں تک رسائی حاصل ہوچکی ہے!
اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا کہ صدام حسین نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اپنے ہتھیار چھپا رکھے ہیں اور ان شواہد کی بنیاد پر جنہیں انہوں نے "یقینی اور اطمینان بخش" قرار دیا، عراق پر سلامتی کونسل کی قرارداد 1441 کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔
پاول جنہوں نے بعد میں اپنے اس بیان پر افسوس کا اظہار کیا، اس وقت سلامتی کونسل پر زور دے کر کہا کہ عراق اس بات کا مستحق نہیں کہ اسے ایک اور موقع دیا جائے۔
پاول نے صدام حکومت پر القاعدہ کے ساتھ روابط کا الزام لگا کر عراق پر بین الاقوامی دباؤ بڑھانے کا بھی مطالبہ کیا۔
اس امریکی جھوٹ کے لئے عراق کو انتہائی بھاری قیمت چکانی پڑی بلکہ عراق آج تک اس کی قیمت چکا رہا ہے۔ یہ جھوٹے دعوے عراق کے خلاف فوجی جارحیت کا نقطہ آغاز بنے جس نے لاکھوں بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا، ان کے گھروں کو تباہ کیا اور ان کے مستقبل کو خاک میں ملا دیا۔
امریکی حکومت کے لیے صدی کے جھوٹ کی رسوائی ایک ایسا سکینڈل اور انسانیت سوز جرم ہے جسے وقت گزرنے کے ساتھ کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا حالانکہ اس کے اثرات 20 سال بعد بھی آج تک برقرار ہیں۔
ماہرین کے مطابق 2003 میں عراق کے خلاف امریکی فوجی جارحیت نے خطے پر بحرانوں کے دروازے کھول دیے جس کے اثرات گزشتہ دو دہائیوں کے باوجود ختم نہیں ہوئے۔
آپ کا تبصرہ