مہر خبررساں ایجنسی؛ سیاسی ڈیسک: آج کل مذاکرات، نتیجہ اور معاہدہ وہ کلیدی الفاظ ہیں جو ایران کے سفارتی حکام کی زبانوں پر چڑھے ہوئے ہیں اور مد مقابل کو اپنا پیغام پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ ایک ایسا معاہدہ جس پر مزید بات چیت کی ضرورت نہیں، بقول امیر عبداللہیان کے صرف جے سی پی او اے کے فریقوں کے سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین پیشرفت میں اردن کے دارالحکومت امان میں بغداد 2 کی سائڈ لائن پر یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے اعلیٰ اہلکار جوزپ بوریل اور ایرانی وزیر خارجہ کے درمیان ایک مشترکہ میٹنگ ہوئی جس میں امیر عبداللہیان نے ایران کی جانب سے مذکراتی پیکج کے مسودے کی بنیاد پر ویانا مذاکرات کی سمری بنانے کے لیے آمادگی کا اعلان کیا۔ ان کا موقف ہے کہ یہ مسودہ مہینوں کی عرق ریزی اور گہرے مذاکرات کا نتیجہ ہے اور مد مقابل فریق کو یہ مشورہ بھی دیا کہ سیاست بازی سے گریز کرتے ہوئے تعمیری اور حقیقت پسندانہ اپروچ اپنائیں اور معاہدے کا اعلان کرنے کے لیے ضروری سیاسی فیصلے کریں۔ انہوں نے بغداد 2 کانفرنس میں اپنی تقریر کے دوران بھی کہا کہ ایران مذاکرات کی سمری بنانے اور انہیں سمیٹنے کے لئے تیار ہے۔
قبل از ایں اقوام متحدہ کی اسمبلی کی سائڈ لائن پر بھی امیر عبد اللہیان نے نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر امریکہ اس مرحلے میں کوئی فیصلہ کرنے کی ہمت اور شجاعت رکھتا ہے تو ہم کوئی سمجھوتہ طے کر سکتے ہیں۔
صرف ایک اختلاف بچا ہوا ہے
حال ہی میں خارجہ پالیسی کی اسٹریٹیجک کونسل کے سربراہ کمال خرازی نے تہران کے اجلاس میں کہا کہ ایران جے سی پی او اے کے وعدوں پر واپس آنے کے لیے تیار ہے اور اس بات پر زور دیا کہ سمجھوتے کی راہ میں باقی بچ جانے والا واحد اختلاف سیف گارڈ کے حوالے سے ہے۔
"سیف گارڈ معاملات" کے متعلق ایران کا موقف یہ ہے کہ چونکہ جوہری معاہدہ جس نوعیت کا بھی ہو حفاظتی اور سیف گارڈ امور ایران پر دباؤ ڈالنے کے لیے بہانے فراہم کر سکتے ہیں، اس لیے متعلقہ کیس کو بند کیے بغیر ایسا معاہدہ ایران کے لیے اقتصادی فائدے پیدا نہیں کر سکے گا اور یہ مسئلہ جے سی پی او اے کے سر پر "ڈیموکلز کی تلوار" کی تلوار کی طرح لٹکتا رہے ہوگا۔ چنانچہ حالیہ برسوں میں ہم نے مغرب والوں کی جانب سے اس اپروچ اور سیاست بازی کو متعدد بار مشاہدہ کیا ہے جبکہ ایران چاہتا ہے کہ جتنا ممکن ہو سکے مغرب والوں سے وعدہ خلافیوں ٹولز سے تہی دامن کردے۔ اس لیے سیف گارڈ معاملات پر حساسیت کسی بھی معاہدے کے استحکام اور ایران کے اقتصادی فائدے کو یقینی بنانے کے لیے ہے جو ماضی میں مغرب والوں دھوکہ دہی کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔
مغرب کو معاہدے کی ضرورت نہیں؟
تاہم مغربی حکام ایران میں فسادات کے بعد معاہدے کے حوالے سے اپنی عدم دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں اور ہنگامہ آرائیوں میں کود کر ایران کے فسادات پر موج سواری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چنانچہ انہون نے ایرانی عوام کو اکسانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس طرح ایران کی داخلی صورتحال پر اثر انداز ہونے کے لئے بظاہر اور سرکاری ٹربیونز کے پیچھے سے معاہدے کے متعلق عدم دلچسپی کی بات کررہے ہیں اور یہ تاثر دے رہے ہیں کہ مغرب کے ایران کے ساتھ مذاکرات بند گلی میں پہنچ چکے ہیں۔
جیسا کہ "یورپی ٹرائیکا" ﴿برطانیہ، فرانس اور جرمنی﴾ نے سلامتی کونسل کے معمول کے اجلاس میں ایرانی کی جانب سے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کے دعووں کو دہرا یا اور ایران کی بڑھتی ہوئی جوہری صلاحیتیں پر تشویش کا اظہار کیا جبکہ اس کے اگلے ہی روز جوزپ بوریل کی اردن میں ایرانی وزیر خارجہ سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے جوہری معاہدے کو پھر سے زندہ کرنے کی بات کی۔ ادھر امریکہ کے ایران کے امور کے لئے نمائندے اور وائٹ ہاوس کی نیشنل سیکورٹی کونسل کے ترجمان بھی اس طرح کے راگ الاپنے میں کسی سے پیچھے نہ رہے۔
تاہم سوال یہ ہے کہ کیا مغرب کو معاہدے کی ضرورت نہیں اور جے سی پی او اے اب ان کے لئے ختم ہوچکا ہے؟ اس سوال کا جواب واضح ہے کہ ایران سے بھی زیادہ جسے مذاکرات اور معاہدے کی ضرورت ہے وہ مغرب ہے، کیونکہ یہی ملک تھے جنہوں نے ایران کی ایٹمی ترقی سے خطرہ محسوس کیا تھا اور یہ شوشہ چھوڑتے ہوئے کہ ایرانی جوہری ترقی ان کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے مذاکرات شروع کئے تھے۔
لہذا مغرب جس خطرے کا دعوی کر رہا ہے یہ ہنگامہ آرائیاں اس خطرے کو ختم کرنے میں کوئی اثر نہیں رکھتیں اور اپنے مطالبات تک پہنچنے کے لئے ایران کے داخلی مظاہروں پر آس نہیں لگا سکتے۔ کمال خرازی کے تازہ بیان کے مطابق ایران کے پاس اس وقت "19 ہزار سینٹری فیوجز" ہیں، اسی لئے مغرب ان کے پاس مذاکرات کے لئے آنے پر مجبور ہوا۔
فسادات اور ہنگامہ آرائیوں کی ناکامی کا اعتراف
موجودہ وقت میں خود مغرب والے بھی جانتے ہیں کہ ایران کو اس طرح کے مظاہروں اور ہنگامہ آرائیوں سے کمزور نہیں کیا جاسکتا اور اس طرح کے مغرب کے تیار کردہ واقعات ایران کی امنگوں، محرکات اور ترقی کے راستے میں خلل ایجاد نہیں کرسکتے۔
چنانچہ غاصب صہیونی حکام نے حال ہی میں المانیتور سے بات کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ "نظام کی تبدیلی ممکن نہیں ہے" اور "ایران نے حالیہ مظاہروں میں ابھی تک دفاع کے لیے اپنے تمام وسائل بروئے کار نہیں لائے ہیں۔" نیز صہیونیوں نے تسلیم کیا کہ ایرانی معاشرہ مذہبی ہے اور چونکہ علماء اور مراجع تقلید نے ان مظاہروں کی حمایت نہیں کی، اس لیے یہ ملک گیر اور کامیاب نہیں ہوں گے۔
اس لیے ایران کے فسادات اور ہنگامہ آرائیاں مغرب کی سلامتی اور جوہری پروگرام کے حوالے سے تشویش کو حل نہیں کرسکتے۔ مغرب والے اپنے مفادات اور مسائل کے درپے ہیں ہیں، اگرچہ انسانی حقوق کے نعروں کی وجہ سے ٹریبون کے پیچھے مخالف موقف اختیار کرتے ہیں جس کا مقصد ایران پر دباؤ بڑھانا ہے تا کہ اسے پیچھے دھکیل سکیں اور زیادہ سے زیادہ پوائنٹ اسکورنگ کرسکیں اور کم سے کم پوائنٹ دے سکیں۔
امریکہ کی منافقت اور ریاکاری
یہاں ایران کے جوہری پروگرام اور مذاکرات کے حوالے سے امریکہ کی منافقت اور ریاکاری مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ سمیت دیگر اعلیٰ حکام بارہا اعلان کر چکے ہیں کہ امریکیوں کو واضح پیغام دیا گیا ہے کہ معاہدے کا حصول چاہتے ہیں تو اپنی حقیقت پسندی اور نیک نیتی ثابت کریں۔ ایرانی حکام کے مطابق فرانس کے صدر میکرون نے ایرانی صدر سے اپنی ملاقات میں کچھ امریکی پیغامات کا ذکر کیا تھا جبکہ صدر رئیسی کا کہنا تھا کہ ہم نے جے پی سی او اے سے ایک بار نقصان اٹھایا ہے، یہی کافی ہے!
ایرانی وزیر خارجہ باضابطہ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ ایک طرف سے جوہری مذاکرات کے پیغامات بھیجتا ہے اور معاہدے کے آخری مرحلے تک پہنچنے کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف سے ایران میں بدامنی پھیلانے اور اسے غیر مستحکم کرنے کی حمایت کرتا ہے۔ بقول امیر عبد اللہیان اس منافقانہ پالیسی کا خاتمہ ضروری ہے۔
تاہم امریکی اپنے جے سی پی او اے کے وعدوں پر عمل درآمد کے حوالے سے فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے اور وقت ضائع کرنے اور اپنے لئے ٹائم گیننگ کے موقع بنانے کے لئے زمین و آسمان کے تانے بانے ملانے میں مصروف ہیں تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ مظاہروں کے گدلے پانی سے کہاں تک مچھلیاں پکڑ سکتے ہیں۔
کون سا معاہدہ؛ محدود یا جامع
اب فریقین کے سامنے دو طرح کے معاہدے ہیں۔ چونکہ ایران پورپ کی اپنے وعدوں پر عمل درآمد کے لئے عدم توانائی اور امریکہ کی اپنے وعدوں پر عدم پابندی کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر ان پر اعتماد نہیں کرسکتا تھا لہذا معاہدے میں ضمانت کا خواہاں ہے۔ ایسی ضمانت جسے امریکی حکام فراہم کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں وہ چیز جس سے ایران کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے بایڈن انتظامیہ بھی دباو میں ہے، ایک محدود معاہدہ اس سے نکلنے کا حل ہوسکتا ہے۔ ایسا معاہدہ جو "اقدام کے مقابلے میں اقدام" اور "کم کے مقابلے میں کم" کے فارمولے پر طے پاسکتا ہے۔
دوسرا آپشن ایک جامع اور طویل مدت معاہدہ ہے کہ جس کے تحت ایران بھی زیادہ محدودیتوں کو قبول کرے گا اور مد مقابل فریق بھی زیادہ سے زیادہ پوائنٹس دے گا۔ بایڈن انتظامیہ کے مستقبل کے حوالے سے ایران کے عدم اطمینان اور اسی طرح امریکہ کے جے سی پی او اے سے دستبرداری کے تجربے کو دیکھتے ہوئے محدود معاہدہ بہترین آپشن ہے۔
اقتصادی فائدے کا حصول، ایران کا معاہدے کے لئے سب سے بڑا ہدف
اسلامی جمہوریہ ایران جوہری معاہدے سے صرف اقتصادی فائدے کا حصول چاہتا ہے۔ اگر امریکی اس اپروچ پر بقدر کافی توجہ دیں تو معاہدے کا حصول کسی بھی وقت سے زیادہ پہنچ میں ہے۔ ایران کے حالیہ دنوں میں ایک مرتبہ پھر بخوبی لچک دکھائی ہے اور مختصر مدت میں مذاکرات کی سمری بنانے کی بات کر کے مغرب والوں کو ایک اہم پیغام دیا ہے۔ اس طرح مد مقابل فریق کی سنجیدگی اور ایران کی قابل توجہ لچک کے ساتھ ایک مختصر مدت میں معاہدہ طے پانا اور مذاکرات کا خاتمہ تمام فریقوں کے مفادات کو یقینی بنا سکتا ہے اور ایران اور مغرب کے مابین جاری جوہری کشمکش کو ختم کرسکتا ہے۔
تاہم موجودہ ایرانی انتظامیہ کے جوہری مذاکرات میں غور طلب بات یہ ہے کہ یہ حکومت تین مرتبہ سمجھوتے کے حصول تک آگے گئی لیکن فراست سے اس سمجھوتے کو انجام تک نہ پہنچا سکی اور بین الاقوامی انارکی کے نظام کی تیز رفتار بدلتی صورتحال اور ایران کے اندرونی واقعات نے ان مذاکرات میں توازن کو بگاڑ دیا۔
اگرچہ موجودہ انتظامیہ نے بارہا اعلان کیا ہے کہ وہ معیشت کو جے سی پی او اے کے ساتھ جوڑیں گے، تاہم اس نکتہ نقطہ نظر کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انہیں اقتصاد و معیشت کے میدان میں مزید دوگنی تگ و دو کرنے اور اس شعبے میں ٹھوس اشاریوں اور معیارات میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔
آپ کا تبصرہ