مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق لبنان اور غاصب صہیونی حکومت کے درمیان انجام پانے والے حالیہ مذاکرات اور ممکنہ معاہدے پر صہیونی حلقوں میں ملے جلے تاثرات پائے جا رہے ہیں۔ حکومتی اہلکار خاص طور پر وزیر اعظم یائر لاپیڈ اسے تاریخی معاہدہ قرار دے رہے ہیں جبکہ ان کے مخالفین جن میں سابق وزیر اعظم اور لیکوڈ پارٹی کے سربراہ بنیامین نتن یاہو سرفہرست ہیں، حکومت کے فیصلے پر شدید تنقید کر رہے ہیں جبکہ تیسری جانب صہیونی ذرائع ابلاغ بھی ممکنہ معاہدے کو لبنان اور سید حسن نصر اللہ کی جیت قرار دے رہے ہیں۔
در ایں اثنا عربی خبری ادارے المیادین نے صہیونی اخبار ہآرتض کا حوالہ دے کر رپورٹ دی ہے کہ مذکورہ اخبار کے مطابق حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ سے خوف قابل توجیہ اور ان سے جنگ کی قیمت بہت زیادہ سنگین ہے کیونکہ اسرائیلی جانتے ہیں کہ ان سے جنگ کی انہیں کیا قیمت چکانا پڑے گی۔
صہیونی اخبار کے مطابق ایک واضح حقیقت پائی جاتی ہے کہ حزب اللہ نے اسرائیل کے مقابلے میں مزاحمت اور ڈیٹرینس پیدا کرلی ہے۔
اس سے قبل صہیونی رجیم کے وزیر اعظم یائر لاپیڈ نے اعلان کیا تھا کہ بیروت اور تل ابیب سمندری سرحدوں کی حدبندی کے معاملے میں ایک تاریخی سمجھوتے تک پہنچ چکے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ صہیونی ذرائع ابلاغ اور ان کے حکام نے خاص طور لبنان اور غاصب صہیونی حکومت کے مابین سمندری سرحدوں کی حد بندی کے معاملے میں مذاکرات کے آغاز کے بعد حزب اللہ اور اس کے سیکریٹری جنرل کی طاقت کے سامنے اپنی شکست کا اظہار کیا ہو۔ اس سلسلے میں سابق صہیونی وزیر اعظم اور لیکوڈ پارٹی کے سربراہ بنیامین نتن یاہو نے موجودہ وزیر اعظم یائر لاپیڈ پر شدید تنقید کی اور سمندری سرحدوں کی حد بندی کے معاملے میں لبنان کے ساتھ معاہدے کو حزب اللہ کے سامنے تاریخی گھٹنے ٹیکنا قرار دیا۔
نتن یاہو کا کہنا تھا کہ میں لاپیڈ کو یاد دلاناچاہتا ہوں کہ کاریش گیس فیلڈ میں توسیع کا کام پانچ سال پہلے سے شروع ہوچکا تھا اور ہم نے خوابوں میں بھی ہرگز نہیں دیکھا تھا کہ اس سے گیس نکالنے کے لئے حسن نصر اللہ سے اجازت لینا پڑے گی۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز لبنان کے صدر میشل عون نے اعلان کیا تھا کہ سمندری سرحدوں کی حدبندی کے معاہدے کا حتمی مسودہ رضایت بخش ہے اور لبنان کے مطالبات کو پورا کرتا ہے۔ جبکہ گزشتہ منگل کی رات حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ہم اس وقت حساس لمحات سے گزر رہے ہیں، وہ اتھارٹی جو لبنان کے سرکاری موقف کا اعلان کرے گی، صدر میشل عون ہیں۔ ہم سرکاری موقف کے اعلان کا انتظار کر رہے ہیں، جب وفود معاہدے پر دستخط کرلیں گے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ سمجھوتہ انجام پا گیا ہے۔ ہم مقاومت کے عنوان سے انتظار کر یں گے۔
اس ضمن میں ایک اور صہیونی اخبار یسرائیل ہایوم نے سمندری سرحدوں کے معاملے کی تازہ ترین صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج کل چرچل کی بات سچ ثابت ہورہی ہے کہ کابینہ کو جنگ یا ننگ و عار میں سے ایک کو انتخاب کرنا ہے تاہم لاپیڈ کی حکومت نے ننگ و عار کو انتخاب کیا ہے۔
اخبار نے اپنی رپورٹ میں مزید لکھا کہ اس بات سے قطع نظر کہ اسرائیل اور لبنان سمندری سرحدوں کے معاہدے کو مانیں گے یا نہیں مانیں گے، اصلی مسئلہ کہیں اور ہے، حزب اللہ!
اخبار کے مطابق لبنان کو پورے امتیازات دینے کا کوئی اچھا اثر نہیں پڑے گا اور ہمارے پڑوسیوں کو ایک منفی پیغام ارسال کرتا ہے، یہ پیغام کہ جس کا مضمون یہ ہے کہ «اسرائیل ﴿غاصب صہیونی رجیم﴾ کے مکمل گھٹنے ٹیکنے کا مطالبہ کرو تا کہ تم بھی وہ سب حاصل کرسکوں جو لبنان نے حاصل کیا ہے۔»
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکہ کی جانب سے لبنان اور صہیونی حکومت کے مابین معاہدے کا حتمی مسودہ بیروت اور تل ابیب کو پیش کیا گیا تھا۔ لبنانی حکام نے معاہدے کے مسودے پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ لہذا اس معاہدے کو بیروت کی جانب سے منظوری مل چکی ہے اور اس کے حتمی ہونے کا اعلان متوقع ہے۔
آپ کا تبصرہ