مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے ممتاز عالم دین علامہ غلام عباس رئیسی نے محرم الحرام کی مناسبت سے مجمع سیدالشہداء العالمیہ قم میں منعقدہ مجلسِ عزا سے خطاب میں کہا کہ محرم ہمیں اپنی زمہ داریوں کا احساس دلاتا ہے۔ محرم ہمیں غم کے ساتھ عظمت روح و عظمت انسانیت کا احساس بھی دلاتا ہے۔ یعنی محرم معنوی بہار کا مہینہ بھی ہے۔ ہمیں کربلا والوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا چاہئے یعنی مہدی فاطمہ کے لئے عالم کو آمادہ کرنے کے لئے میدان میں نکلنا چاہئے۔
انہوں نے خطاب میں کہا کہ حضرت رسول خدا(ص) جب جنگوں میں شرکت کرتے تھے اور حضرت امام علی علیہ السلام اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمنوں سے جنگ لڑتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلامی حکومت کے لئے اپنی جانیں تک قربان کرنے کے لئے تیار تھے۔ قران نے کافروں کے مسلمانوں پر تسلط کو حرام قرار دیا ہے۔ حرام قرار دیا ہے کہ کفار مسلمانوں پر حکومت کریں۔ اس کا مطلب کیا ہے مسلمانوں کے پاس حکومت نہ ہو؟ مسلمانوں کے ہاتھ میں سیاسی غلبہ نہ ہو؟ آج خانہ کعبہ اور مدینہ منور پر امریکہ کی حکومت ہے۔ جب آپ کافر سے مغلوب ہوتے ہیں تو کافر آپ کی ساری صلاحیتوں کے ملک بن جاتے ہیں۔ آج سعودی عرب کے مال و دولت، علم و عمل، زبان و قلم حتی نماز اور عقیدہ توحید بھی امریکہ کے مفاد میں ہیں۔آپ غور کریں سعودی عرب کا عقیدہ توحید امریکی مفاد میں ہے۔ حکومت بہت اہم چیز ہے۔ مشرکین مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قتل کے درپے تھے لیکن جب ان کے ہاتھ میں کوئی منظم حکومت نہیں تھی اس لئے وہ آپ کو شہید نہیں کرسکے جبکہ کربلا میں یزید کے پاس حکومت تھی تو امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا۔ حکومت بذاتہ مقصود اسلام نہیں ہے البتہ اسلام کے اہداف و مقاصد حکومت اسلامی پر موقوف ہے۔
انہوں نے کہاکہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کو اپنی شہادت نظر آ رہی تھی اور آپ شہید ہونے کے لئے جا رہے تھے تاکہ امت اسلامیہ کو ظلم سے مقابلے اور حکومت اسلامی کے قیام کی طرف متوجہ کرسکیں۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے خون سے امت اسلامیہ کو خواب غفلت سے جگایا اور انہیں حکومت اسلامی کی طرف دعوت دی ہے۔ مگر ہم نے لبیک نہیں کہا اور کربلا کے بعد بھی آج تک ہر جگہ ظالموں کی حکومت برقرار ہے۔ بعض لوگوں انقلاب اسلامی کو ایرانی انقلاب متعارف کروانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن خبردار یہ انقلاب کربلا کا اثر ہے۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ امت مسلمہ پر حجت ہیں۔ انہوں نے آج کے دور میں لوگوں کو حکومت اسلامی کا راستہ دکھایا ہے اور حدود الہی کے نفاذ کی طرف دعوت دی ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ پاکستان کے اندر عوام اچھے جذبات رکھتے ہیں، شاید جذبات کے لحاظ سے پاکستانی قوم ساری دنیا کی قوموں میں نمایاں ہو لیکن بصیرت کا فقدان ہے۔ بصیرت کے بغیر جذبات چوری ہوجاتے ہیں۔ بے بصیرت قوم کے جذبات سے دوسرے لوگ استفادہ کرتے ہیں۔ حالیہ مسئلے میں قوم عمران خان کا ساتھ دے رہی ہے وجہ یہ ہے کہ قوم آزادی چاہتی ہے وہ غلامی سے بیزار ہے لیکن قائد اعظم رحمہ اللہ کے بعد ہمیشہ غلاموں کی حکمرانی رہی ہے۔ البتہ غلامی کے درجات ہوتے ہیں۔ جو کم غلام ہوتے ہیں امریکہ انہیں راستے سے ہٹاتا ہے۔ امریکہ کو سراپا تسلیم غلام چاہئے۔ ہمارے علماء کو کسی امریکی غلام کی حمایت نہیں کرنی چاہئے۔ کوئی انہیں اچھا نہ سمجھیں۔ ہاں اپنے حقوق لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ چور سے اپنے حقوق لینے کا مطلب یہ نہیں ہے آپ چور کو ٹھیک مانیں۔ بد اور بدتر میں سے بد کے انتخاب کے مسئلے میں بھی یہ شرط ہے کہ کوئی تیسری صورت ممکن نہ ہو۔ جیسے کینسر کا مریض جان سے ہاتھ دھونے اور ہاتھ کاٹنے کے درمیان گرفتار ہو اور کوئی تیسری صورت نہ ہو تو اسے ہاتھ کٹوانا چاہئے۔ ہاتھ کٹوانا بھی بد ہے لیکن جان سے ہاتھ دھونا اس سے بھی بدتر ہے۔
آپ کا تبصرہ