مہر خبر رساں ایجنسی، انٹرنیشنل ڈیسک: روس کے صدر ولاڈیمر پیوٹن نے حال ہی میں تہران کا دورہ کیا جبکہ یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا جب روس یوکرین کی جنگ میں مصروف ہے۔ انہوں نے اپنے دورے کے دوران رہبر انقلاب اسلامی سے بھی ملاقات کی۔ خطے کے تجزیہ نگاروں اور مبصرین کے مطابق یہ ملاقات ایک مخصوص پیغام کی حامل تھی۔ دوسری جانب سے حالیہ مہینوں میں ایران، چین اور روس کے تعلقات بخوبی فروغ پا رہے ہیں اور ان ملکوں نے مختلف علاقائی اور عالمی مسائل پر مشترکہ موقف کا اظہار کیا ہے۔
اس سلسلے میں ہم نے لبنانی سیاسی تجزیہ کار وسیم بزی العاملی کے ساتھ ایک گفتگو انجام دی ہے۔ گفتگو کا متن ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
* آپ روس کے صدر ولاڈیمر پیوٹن کے دورہ تہران کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
میرے خیال میں اس یہ دورہ اپنے اندر بہت سے جیوپولیٹکل اور اسٹریٹجک پیغامات لئے ہوئے تھا، خاص طور پر ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ گزشتہ سات سالوں میں پیوٹن کی رہبر انقلاب اسلامی سے یہ تیسری ملاقات ہے۔ یقینا یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی ہے کہ جب دنیا کی صورتحال انتہائی حساس ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ ایران، چین اور روس کے سہ فریقی اتحاد کو پہلے سے بڑھ کر تقویت ملی ہے اور خطے میں امریکہ کی یکطرفہ سیاست کے تابوت میں ایک اور کیل ٹھونکی ہے۔
ایران، چین اور روس کے سہ فریقی اتحاد کو پہلے سے بڑھ کر تقویت ملی ہے
یہ دورہ ایسے حالات میں انجام پایا ہے کہ جب روس اور صہیونی رجیم کے تعلقات ایک خاموش بحران کی آزمائش سے گزر رہے ہیں، ہماری توجہ رہے کہ صہیونی رجیم نے یوکرین جنگ میں روس کے برخلاف متخاصم کیمپ کی جانبداری کی ہے اور حسب سابق یوکرین کی افواج کو اپنی امداد جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ مسائل سبب بنے ہیں کہ ماسکو کے تل ابیب کے ساتھ تعلقات میں سردی آنے کی وجوہات تیزی کے ساتھ بڑھ جائیں اور یہی مسائل ایران اور روس کے تعلقات پر بھی اثر انداز ہوئے اور ان کے مضبوط ہونے کا باعث بنے۔
* حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کے حالیہ خطاب اور بحیرہ روم میں تیل و گیس کے نئے توازن کے متعلق ان کے اظہارات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
میرے خیال میں سید حسن نصر اللہ کا حالیہ خطاب در حقیقت ان کے دو صہیونی فوجیوں کو قیدی بنانے کے بعد ١۲ جولائی ۲۰۰٦ میں کئے جانے والے خطاب کی طرح ایک تاریخ ساز خطاب تھا کہ جو ہر قسم کے فیصلے کا آخری معیار قرار پاسکتا ہے۔ ہم نے ١٦ سال کے فاصلے کے ساتھ سید حسن نصر اللہ کی جانب سے ایک اور خطاب دیکھا کہ عسکری توازن کو معین کرنے والا اور البتہ سرنوشت ساز تھا۔
حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے اپنے ان اظہارات کے ذریعے در حقیقت مقاومت کی طاقت کو جو بالقوہ تھی ایک بالفعل طاقت میں تبدیل کردیا اور اس کی بنیاد پر ایک نئے توازن کا نقشہ کھینچا۔ یہ طاقت کا یہ نیا توازن لبنانیوں کی عزت بڑھنے کا سبب بنے گا اور ہمارے حقوق کو ضمانت فراہم کرے گا۔
* امریکی صدر جو بایڈن کے مشرق وسطی کے دورے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ اس کے نتائج کے متعلق آپ کا تجزیہ کیا ہے؟
بایڈن کا خیال تھا کہ اس دورے میں روس کے تیل و گیس کا کوئی متبادل ڈھونڈھے، اس بات کے درپے تھا کہ مقبوضہ علاقوں اور سعودی عرب کے سفر کے نتیجے میں عالمی منڈیوں میں ایندھن کی کمی کو پورا کرے۔ تاہم کاریش کی گیس فیلڈ سے گیس کے اخراج کے متعلق سید حسن نصر اللہ کے خطاب کی وجہ سے اس گیس فیلڈ میں صہیونیوں کا کام تا اطلاع ثانوی تاخیر کا شکار ہوگیا ، البتہ بایڈن نے اپنے ریاض کے سفر کے دوران بھی کوشش کی کہ سعودی عرب سے زیادہ سے زیادہ تیل حاصل کیا جائے جبکہ اس سلسلے میں بھی اسے منفی جواب کا سامنا کرنا پڑا، حقیقت میں اس اعتبار سے بایڈن کے دورے کو ناکام دورے کا نام دیا جاسکتا ہے۔
آپ کا تبصرہ