وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر کے نام
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
جناب سردار تنویر الیاس خان، وزیر اعظم آزاد جموں کشمیر میں آپ کی خدمت میں چند عرائض اس لئے پیش کر رہا ہوں کیونکہ ابھی دو روز قبل ہی آپ نے ایک کارنر میٹنگ میں اسرائیل کو پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کی بات کی ہے۔بطور پاکستانی میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے پچیس کروڑ عوام اپنے محبوب و عظیم قائد جناب قائد اعظم محمد علی جناح کی سیرت کو جانتے ہیں اور قائد سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور ہمارے قائد محترم نے فلسطین پر ہونے والے صہیونی غاصبانہ تسلط کی تحریک کے دوران ہی کہہ دیا تھا کہ فلسطین کے ساتھ جو خیانت کی جا رہی ہے بر صغیر کے مسلمان اس پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ قائد اعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ فلسطین کی سرزمین پر برطانوی اور مغربی ایما ء پر قائم کی جانے والی صہیونیوں کی ریاست اسرائیل ایک ناجائز ریاست اور مغرب کی ناجائز اولاد ہے۔ بات یہاں تک نہیں رکی تھی قائد اعظم محمد علی جناح نے سنہ1920ء میں فلسطین کے لئے میڈیکل وفد بھی روانہ کیا تھا۔اس سے آگے چلتے ہوئے ہندوستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے جناح صاحب نے کئی مرتبہ فلسطین ڈے منایا او ر فلسطین کاز کی حمایت جاری رکھی۔ تحریک آزادی پاکستان جاری و ساری تھی، سنہ1940ء میں لاہور مینار پاکستان پر قرار داد پاکستان پیش کرتے وقت ہمارے عظیم وبے باک رہنما محمد علی جناح نے قرار داد فلسطین پیش کی اور فلسطین فنڈ قائم کیا تھا۔ جب پاکستان آزاد ہو چکا تو اس زمانے میں بھی خارجہ پالیسی کے اصول وضع کرتے وقت آپ نے فلسطین کو صف اول میں رکھا اور اسی زمانہ میں جب مسئلہ کشمیرجنم لے چکا تھا تو ہمارے اسی عظیم قائد نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیتے ہوئے اس کی اہمیت کو اجاگر کیا تھا تا کہ پاکستان کا ہر شہری کشمیر کے لئے اپنی جان و مال کی قربانی دینے سے گریز نہ کرے۔ قائد اعظم کی اسی بصیرت اور محبت کا نتیجہ ہے کہ آج تک پاکستان کا ہر شہری چاہے وہ بچہ ہو یا جوان، مرد ہو یا زن، بزرگ ہو یا نوجوان سب کے سب کشمیر کے لئے اپنی جان اور اپنا مال قربان کرتے آئے ہیں۔یہ سب کچھ قائد اعظم محمد علی جناح کے مرہون منت ہے۔
میں آپ کی خدمت میں علامہ اقبال کہ جن کو شاید آپ صرف شاعر مشرق سمجھتے ہوں گے لیکن حقیقت میں وہ ایک حکیم تھے جنہوں نے اس امت کی حکمت فرمائی اور آج تک ان کی حکمت قوم کی رگ و جاں میں ہے۔ علامہ اقبال نے فلسطین کا سفر کیا، چند دن فلسطین میں قیام کیا، قبلہ اول تشریف لے گئے، مفتی اعظم فلسطین سے ملاقات کی، کانفرنس میں شرکت کی، سفر سے واپسی بر صغیر پہنچنے پر آپ نے قو م کو بتایا کہ اگر فلسطین کی حمایت کے جرم میں مجھے جیل بھی جانا پڑا تو میں جیل قبول کرنے کو تیار ہوں لیکن فلسطینی عوام اور قبلہ اول کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔ علامہ اقبال کے زندہ وجاوید اشعار آج بھی نہ صرف پاکستان کے جوانوں کا لہو گرما رہے ہیں بلکہ فلسطین سمیت کشمیر اور دنیا بھر کے تمام حریت پسندوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔
جناب وزیر اعظم بصد احترام میں آپ کو یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین کسی عرب ممالک کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ امت مسلمہ اور عالمگیر انسانی مسئلہ ہے جس کے لئے نہ صرف مسلمان بلکہ دنیا کی دیگر اقوام جو با ضمیر ہیں یہاں شرط با ضمیر ہونے کی ہے، سب کے سب فلسطین کاز کے ساتھ ہیں اور فلسطین کی حمایت کرتے ہیں اور فلسطین کی مقدس سرزمین پر قائم اسرائیل کو غاصب صہیونیوں کی ناجائز ریاست تصور کرتے ہیں۔ آ پ وزیر اعظم ہیں آپ کو تو اس بات کا علم ہونا چاہئیے تھا کہ فلسطین کا مسئلہ کسی عرب ملک کے ساتھ جڑا ہوا نہیں ہے کہ اگر کوئی دو چار عرب ریاستوں کے حکمران اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنا لیں گے تو مسئلہ فلسطین ختم ہو جائے گا۔ مجھے حیرت کے ساتھ سات بہت افسوس ہے کہ آپ جیسا انسان جو کشمیری حریت پسند عوا م کی قیادت کر رہا ہے وہ کس طرح ایک غاصب اور جارح ناجائز ریاست کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہے اور کس طرح ایک عظیم و شریف ملت پاکستان کی توہین کرنے کی جسارت کر بیٹھا ہے۔
جناب وزیر اعظم آزاد کشمیر،سردار تنویر الیاس خان صاحب میں آپ کو یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ دنیامیں یہودیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو فلسطین پر قائم اسرائیل کو ناجائز اور غاصبانہ تسلق قرار دیتی ہے۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو آپ بطور وزیر اعظم یقینا امریکہ تو جاتے ہی ہوں گے جب کبھی امریکہ کا چکر لگے تو وہاں معلوم کیجئے گا آپ کو بتایا جائے گا کہ دسیوں ہزار یہودی امریکہ میں مقیم ہیں جو فلسطین کو فلسطینیوں کا وطن قرار دیتے ہیں اور اسرائیل کو ایک غاصب او ر ناجائز ریاست قرار دیتے ہیں۔ اب میں یہاں پر یہ کہنے پر مجبور ہوں اگر چہ وہ یہودی ہیں، آپ جیسے عظیم مسلمان بھی نہیں ہیں لیکن وہ حق بات کے ساتھ ہیں اور آپ جیسا شخص کہ جس کے ہاتھ میں کشمیر جیسی غیور عوام کی قیادت ہے وہ کس طرح باطل کی پیروی میں مصروف عمل ہے۔
جناب سردار الیاس خان صاحب،اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے تعلقات قائم کروانے کی آ پ کو ایسی کیا عجلت ہے جبکہ آپ خود آزاد کشمیر کے وزیر اعظم ہیں۔مجھے یہاں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آپ کی اسرائیل سے متعلق گفتگو بالکل بالغانہ اور عاقلانہ نہیں تھی۔مجھے افسوس ہے کہ آپ اس عظیم منصب پر کس طرح فائز ہوئے ہیں؟ مجھے یہ بھی افسوس ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین امریکی و مغربی غلامی سے آزادی کا نعرہ لگا کر ایک طویل اور انتھک جدوجہد میں مصروف ہیں لیکن آپ انہی کی صفوں میں بیٹھ کر مغرب کی غلامی کرنے کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ جناب سردار تنویر صاحب یقینا آپ نے جس مقصد کے لئے اسرائیل کی حمایت میں بیان دیا ہے آپ سے امریکہ، برطانیہ اور اسرائی والے بہت خوش ہوئے ہوں گے لیکن حقیقت میں آپ نے اپنی کشمیری حریت پسندی کو فروخت کر دیا ہے جس پر پوری آزاد کشمیر ہی نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر میں بھی آپ پر نفرین کی جا رہی ہے۔مجھے افسوس ہے کہ آپ ایک اعلی منصب پر فائز ہونے کے باوجود درست معلومات سے بہت دور ہیں۔
جناب محترم باتیں تو بہت ہیں جو میں آپ کی خدمت میں بیان کرنا چاہتا ہوں لیکن چند باتوں پر اکتفا کرتے ہوئے یہی کہتا ہوں کہ آپ نے صرف کشمیری عوام کا ہی دل نہیں دکھا یا بلکہ پاکستان کے پچیس کروڑ لوگوں کا دل دکھایا ہے جو کشمیر اور کشمیری عوام کو سر کا تاج سمجھتے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ پاکستا ن کے غیور عوام آپ کی ان احمقانہ باتوں کے نتیجہ میں کشمیری عوام کو سزاوار قرار نہیں دیں گے بلکہ ہم جانتے ہیں کہ آپ نے ذاتی مفادات کی خاطر یہ کام کیا ہے اور مسلمانوں کی تاریخ میں آپ جیسے میر جعفر اور میر صادق ہمیشہ موجود رہے ہیں لیکن انہی میروں کے درمیان کشمیرکے وہ ساڑھے سات لاکھ شہداء ہیں جنہوں نے ظلم وجبر کے خلاف اور آزادی و حق کی خاطر اپنے لہو سے وطن کی آبیاری کی ہے اور آج بھی حریت پسند وں میں، عبدالغنی بٹ، عمر فارق، سیدعلی گیلانی، آسیہ اندرابی، یاسین ملک، افضل گورو، برہان وانی، مقبول بٹ، فریدہ بہن جی اور درجنوں ایسی مثالیں موجود ہیں جن کے نام سن کر سینہ فخر سے چوڑا ہو جاتا ہے لیکن آپ جیسے سردار وغیرہ کا نام سن کر پوری کشمیری عوام کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
آپ کا تبصرہ