27 جولائی، 2022، 6:03 PM

امریکی صدر جو بائیڈن کی صہیونی وفاداری 

امریکی صدر جو بائیڈن کی صہیونی وفاداری 

دنیا یہ بات عمومی طور پر جانتی ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن صہونزم اور صہیونی نظریات کے حامی ہیں۔ کسی حد تک یہ بھی کہا جائے کہ وہ خود صہیونی فکر کی پیروی کرتے ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ اگر اس بات کو تسلیم نہ بھی کیا جائے تو امریکی نظام سیاست ہمیشہ سے صہیونزم اور صہیونیوں کے مفادات کا حامی رہا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن کی صہیونی وفاداری 
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم 
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

دنیا یہ بات عمومی طور پر جانتی ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن صہونزم اور صہیونی نظریات کے حامی ہیں۔ کسی حد تک یہ بھی کہا جائے کہ وہ خود صہیونی فکر کی پیروی کرتے ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ اگر اس بات کو تسلیم نہ بھی کیا جائے تو امریکی نظام سیاست ہمیشہ سے صہیونزم اور صہیونیوں کے مفادات کا حامی رہا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال سرزمین فلسطین پر قائم کی جانے والی صہیونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل کی قیام سے مسلسل حمایت کرنا اور صہیونیوں کی جانب سے فلسطینی مظلوموں کے خلاف روا رکھے جانے والے بد ترین اور انسانیت سوز مظالم کی پردہ پوشی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اداروں بالخصوص سلامتی کونسل میں فلسطینیوں کے حق میں آنے والی قرار دادوں کو اسرائیل اور صہیونیوں حق میں ویٹو کرنا امریکی تاریخ کا حصہ ہے۔
امریکہ کی جانب سے غاصب ریاست اسرائیل کی سرپرستی ہمیشہ سے ترجیحات میں شامل رہی ہے حالانکہ یہی صہیونی دہشت گرد ہیں کہ جنہوں نے امریکی بحری جہاز یو ایس ایس لبرٹی کو سنہ1967ء میں اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجہ میں تین درجن کے لگ بھگ امریکی نیول میرین ہلاک ہو گئے تھے جبکہ دو سو کے قریب افراد شدید زخمی ہوئے تھے جن میں سے اکثر بعد ازاں ہلاک ہوئے۔ اسی طرح صہیونیوں کی جارح ریاست اسرائیل کی بدنامہ زمانہ خفیہ ایجنسی موساد امریکی صدور کے خلاف جاسوسی بھی کرتی رہی ہے اور تاحال یہ جاسوسی کا کام جاری ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ امریکی نظام سیاست نے اپنے ہی شہریوں کے ٹیکس سے ایک ایسی غاصب اور جارح ریاست کی سرپرستی کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے جو نہ صرف فلسطین کے عوام کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ خطے کی دوسری ریاستوں اور امن پسند انسانوں کے لئے خطرہ ہونے کے ساتھ ساتھ خود امریکی شہریوں کے لئے بھی اذیت کا باعث بن چکی ہے۔ یہاں امریکی شہری دن رات محنت کر کے حکومت کو ٹیکسز ادا کرتے ہیں وہاں دوسری طرف امریکی شہریوں کے ٹیکس سے جمع ہونے والی بھاری رقم کو اسرائیل کی فوجی امداد کے نام پر اربوں ڈالر میں امریکی سرکار خرچ کرتی ہے۔ اس فوجی امداد کے بعد اسرائیل نہ صرف فلسطین کے مظلوم اور نہتے عوام کے خلاف ظلم کی داستانیں رقم کرتا ہے بلکہ خطے میں دہشت گردی، نا امنی اور انتشار کو پھیلانے میں استعمال کرتا ہے۔
گذشتہ دنوں امریکی صدر نے مقبوضہ فلسطین کا دورہ کیا، مقبوضہ فلسطین یعنی جس پر اسرائیل نامی ایک ناجائز اور غاصب ریاست قائم ہے۔ اس دورے کے دوران دنیا بھر کے سیاست دانوں نے بہت کچھ کہا اور بہت کچھ میڈیا پر سننے میں آیا۔ یہاں تک باتیں سامنے آتی رہیں کہ امریکی صدر یروشلم معاہدے کے تحت فلسطین اور اسرائیل کے مسئلہ کو حل کر دیں گے۔ اور یہاں پر امن و امان قائم ہو گا۔حقیقت میں بالخصوص مغربی دنیا اور بالعموم سیاستدانوں اور تجزیہ نگاروں کو یہ بات معلوم ہی نہیں ہے کہ مسئلہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن قائم کرنے کا نہیں ہے۔در اصل حقیقت یہ ہے کہ فلسطین ایک ایسی سرزمین مقدس ہے جہاں سنہ1948ء تک یہودی، عیسائی اور مسلمان اقوام کے ساتھ ساتھ دیگر چھوٹی اقوام آباد تھیں، سنہ1948ء میں برطانوی استعمار کی سرپرستی اور امریکی آشیرباد کے نتیجہ میں فلسطین اور فلسطینیوں کے وطن پر ایک نئی ریاست کو وجود دیا گیا جو کہ دنیا بھر سے لا کر بسائے گئے غاصب صہیونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل ہے۔اب جب بھی مسئلہ فلسطین کی بات ہو گی تو اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مسئلہ فلسطین امن سے زیادہ انصاف کا متلاشی ہے اور انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ فلسطین، فلسطینیوں کا وطن ہے اور اسرائیل باہر سے آئے ہوئے غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست ہے۔
بہر حال امریکی صدر نے مقبوضہ فلسطین کے دورے میں یروشلم معاہدے کو متعارف کروایا۔حقیقت میں یہ کام انہوں نے ہمیشہ کی طرح صہیونیوں کے ساتھ اپنی وفاداری کا ثبوت دینے کے لئے انجام دیا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ صہیونیوں کی ناراضگی جہاں ان کی سیاست پر اثر انداز ہوسکتی ہے وہاں ان کی صدارت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے یا پھر شاید ان کو یہ خوف بھی لا حق تھا کہ مقبوضہ فلسطین میں پہنچنے کے بعد صہیونیوں کے مفادات سے ہٹ کر کوئی بات کی تو انہیں ماضی کے ایک سابق امریکی صدر کی طر ح قتل ہی نہ کر دیا جائے۔ ان تمام شکوک و شبہات نے امریکی صدر کو صہیونیوں کی وفاداری پر مجبور کر رکھا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر نے صہیونزم کے پیروکار ہونے کا اعلان بھی کیا ہے اور شاید یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ صہیونزم کا پیروکار ہے۔
جو بائیڈن اور ان سے قبل دونالڈ ٹرمپ بھی خطے میں عرب ریاستوں کے ساتھ مل کر یہی کوشش کرتے رہے ہیں کہ صہیونیوں کو عرب دنیا میں تسلیم کروائیں تا کہ صہیونیوں کے لئے راستے ہموار ہو سکیں۔عجیب بات یہ ہے کہ امریکہ کی کٹھ پتلی عرب حکومتیں صہیونیوں کے ساتھ تعلقات بنانے کو اپنے لئے باعث شرف سمجھ رہی ہیں حالانکہ یہ سب تاریخ کی بد ترین غلطی اور امت مسلمہ کے ساتھ خیانت کے مرتکب ہیں۔ امریکی صدر نے صہیونیوں کے ساتھ اپنی وفاداری کا ایک اور قدم بڑھاتے ہوئے غاصب اسرائیل سے براہ راست سعودی عرب کی طرف سفر کیا اور یہ صہیونیوں کو اپنی وفاداری کا ایک اور ثبوت پیش کیا۔بائیڈن نے جہاں ایک طرف اپنی وفادرای ثابت کی ہے وہاں ساتھ ساتھ سعودی عرب کے حکمرانوں کو اسرائیل کے ساتھ مزید قریب کرنے کی کوشش کی ہے۔اس عنوان سے فلسطین کی حریت پسند قیادت، فلسطین کے عوام سمیت دنیا بھر کے مسلمان عوام اور فلسطینی حامیوں کی جانب سے عرب اسرائیل تعلقات کے موضوع پر جہاں عرب حکمرانوں کو شدید تنقید کا سامنا ہے وہاں امریکی صدر بھی اس سے علیحدہ نہیں ہیں۔
فلسطین امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈ ن کا دورہ کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر پایا ہے کیونکہ فلسطینی دھڑوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ وہ غاصب صہیونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے۔لہذا امریکی صدر کی صہیونی وفاداری تو ایک طرف لیکن دورے کے نتائج کی بات کی جائے تو خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔ دوسری طرف اسرائیل بھی شدید قسم کے سیاسی بحران کا شکار ہے جس کی وجہ سے اسرائیل پہلے سے زیادہ کمزور اور غیر مستحکم ہو چکاہے۔
موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کے مقبوضہ فلسطین دورے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ جس طرح ماضی میں امریکی صدور مقبوضہ فلسطین آتے رہے اور صہیونیوں کے مفادات کے تحفظ کی خاطر اقدامات اٹھاتے رہے اسی طرح جو بائیڈن بھی کوئی نیا کام انجام دینے میں ناکام نظر آئے ہیں بلکہ ان کے اس دورے میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ صہیونیوں کو باورکروا یا جائے کہ امریکہ صہیونیوں کے ساتھ ہے اور ان کی پشت پناہی کرے گا۔ یہی وہ نقطہ ہے جس نے امریکی عوام کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ امریکی نظام سیاست آخر دنیا بھر میں انسانیت سوز مظالم کے خلاف کھڑا ہونے کی بجائے ظالم اور ظلم کرنے والے صہیونی طاقت اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔یہی حقیقت میں امریکی نظام سیاست کا مکار اور سیاہ چہرہ ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف امریکی شہریوں کے لئے عیاں ہو رہا ہے بلکہ اقوام عالم اس بات کا مشاہدہ کر رہی ہیں کہ امریکہ دنیا میں مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل کی جڑ ہے۔

News ID 1911734

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha