13 دسمبر، 2025، 9:18 PM

خطرناک مرحلہ درپیش ہے، مقاومت ہرگز غیر مسلح نہیں ہوگی، شیخ نعیم قاسم

خطرناک مرحلہ درپیش ہے، مقاومت ہرگز غیر مسلح نہیں ہوگی، شیخ نعیم قاسم

حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ ملک کے دفاع کی بنیادی ذمہ داری ریاست اور لبنانی فوج کی ہے، مقاومت کبھی اپنے ہتھیاروں سے دست بردار نہیں ہوگی۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حزب‌اللہ کے سیکریٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے دوٹوک انداز میں اعلان کیا ہے کہ حزب‌اللہ کسی بھی ایسے سیاسی، عسکری یا سفارتی فریم ورک کو قبول نہیں کرے گی جو اسرائیلی قبضے یا امریکی بالادستی کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر منتج ہو۔ مقاومت لبنان کی اصل قوت ہے اور اسے کمزور کرنے کا مطلب ملک کے وجود اور مستقبل کو خطرے میں ڈالنا ہے۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شیخ نعیم قاسم نے حضرت فاطمہؑ کو پوری دنیا کی خواتین کے لیے رول ماڈل اور خالص محمدی اسلام کی عملی تصویر قرار دیا۔ آج کا اجتماع مقاومت، حزب‌اللہ اور امت مسلمہ کے عظیم شہداء بالخصوص سید الشہداء مقاومت شہید سید حسن نصراللہؒ کے راستے سے تجدید عہد کا موقع ہے۔

انہوں نے لبنانی خواتین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ باوقار، صابر اور ثابت قدم خواتین ہی عزت، اخلاق، وطن دوستی اور مزاحمت کی علامت ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں حاصل ہونے والی کامیابیوں میں ان کا کردار بنیادی رہا ہے۔

شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ جنگ بندی معاہدے کے بعد ایک نیا اور خطرناک مرحلہ شروع ہوچکا ہے جس کے لیے مختلف نوعیت کے موقف اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اب لبنانی ریاست پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک کی خودمختاری اور آزادی کو مضبوط کرے، جبکہ مزاحمت نے جنگ بندی معاہدے پر مکمل عمل درآمد اور ریاست کی مدد کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائی ہیں۔

انہوں نے اقوام متحدہ کی امن فورس (یونیفل) کے سربراہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس بات کے کوئی شواہد موجود نہیں کہ حزب‌اللہ دریائے لیتانی کے جنوب میں دوبارہ منظم ہو رہی ہے، جبکہ اس کے برعکس اسرائیل کھلم کھلا جنگ بندی کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ لبنانی فریق معاہدے پر پوری طرح عمل کر رہا ہے، مگر صہیونی حکومت نے تاحال اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا۔

حزب‌اللہ کے سربراہ نے واضح کیا کہ دفاع کی بنیادی ذمہ داری ریاست اور لبنانی فوج کی ہے، جبکہ مزاحمت کا کردار ریاست کی مدد اور حمایت ہے۔ حزب‌اللہ لبنانی فوج کے ساتھ مکمل تعاون کے لیے تیار اور ایسی جامع دفاعی حکمتِ عملی سے متفق ہے جو لبنان اور مزاحمت کی طاقت کو یکجا کرے تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ امریکی۔اسرائیلی منطق کے تحت اسلحے کو محدود کرنا دراصل لبنان کی قوت کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔

شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ اگر فوج ملک کا دفاع کرنے سے عاجز ہے تو کیا ہمیں اسلحہ چھوڑ دینا چاہیے؟ نہیں، بلکہ مزاحمت کا فرض ہے کہ فوج کی مدد کرے اور زمینوں کی آزادی میں کردار ادا کرے۔ مزاحمت ایک دفاعی حکمت عملی کے ساتھ تیار ہے تاکہ لبنان کی طاقت کو بروئے کار لایا جاسکے لیکن امریکہ اور اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈالنے اور سمجھوتہ کرنے کے سخت خلاف ہے۔ اگر لبنان نے ہتھیار ڈال دیے تو اس کا وجود ختم ہوجائے گا۔ شام کی صورتحال ہمارے سامنے ایک مثال ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی نظر میں واحد راستہ یہ ہے کہ لبنان ہتھیار ڈال دے اور اسرائیلی کنٹرول میں آجائے۔ ہتھیار ڈالنا لبنان کی تباہی کا سبب ہوگا۔ اسرائیلی منصوبہ یہ تھا کہ سید حسن نصراللہ اور دیگر شہید کمانڈروں کے قتل کے بعد حزب اللہ کو ختم کردیا جائے اور مزاحمت کو نابود کردیا جائے۔ اگر ہم متحد اور ثابت قدم رہیں تو جنگ نہیں ہوگی۔ مزاحمت کی موجودگی ہی زندگی، قوم اور عزت کی ضمانت ہے۔ ہم نے "اولی الباس" کی جنگ میں دشمن کے منصوبے کو ناکام بنایا جو حزب اللہ کو ختم کرنا چاہتا تھا۔

انہوں نے امریکہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ملک کا دفاع کریں گے اور کسی بھی صورت میں اپنا اسلحہ نہیں چھوڑیں گے تاکہ اسرائیل کے عزائم ناکام ہوجائیں۔ اگر جنگ ہوئی تو دشمن اپنے اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہوگا۔ ہم امام حسینؑ کے پیروکار ہیں۔

شیخ نعیم قاسم نے کہا: مزاحمت نے چار بڑے کارنامے انجام دیے؛ زمینوں کو آزاد کیا؛ چیلنجوں کا مقابلہ کیا؛ 2006 سے 2023 تک خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھا اور تاریخی مقاومت کرتے ہوئے لبنان پر حملے کو ناکام بنایا۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکی ایلچی لبنان کو شام میں ضم کرنا چاہتا ہے، جہاں اقلیتیں یا تو گم ہوجائیں گی یا مجبور ہوکر ہجرت کریں۔ اسرائیل کی موجودگی میں نہ مسلمان اور نہ مسیحی لبنان میں محفوظ رہیں گے۔

News ID 1937058

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha