مہر خبررساں ایجنسی، دفاعی ڈیسک: یکم ستمبر کو ایران میں فضائی دفاع کا دن منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر قوم اپنے شہید ہیروز کو یاد کرتی ہے۔ یہ دن ملک کے فضائی دفاع کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ فضائی دفاع دشمن کے حملوں کے مقابلے میں پہلی صفِ دفاع ہے اور ہر فضائی خطرے سے ملک کی حفاظت کرنے کا بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ دن ایرانی عوام کو یاد دہانی کراتا ہے کہ ملک کی فضائی سرحدیں محفوظ رکھنے کے لیے یہ فورس کتنی اہم اور لازمی ہے۔
رہبرِ معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای، نے بارہا اس فضائیہ کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے فضائی دفاع کو ملک کی آبرو کا دفاع قرار دیا اور اس میں کوتاہی کو گناہ سے تعبیر کیا۔ انہوں نے انسانی اور تکنیکی صلاحیتوں کی بہتری، بیداری اور مؤثر نظم و نسق پر بھی زور دیا۔
فضائی دفاعی نظام کی اہمیت
یکم ستمبر 2008 کو رہبر معظم انقلاب اسلامی کی تدبیر سے فضائی دفاع کا دن قرار دیا گیا۔ یہ دن اس وقت کی یاد دلاتا ہے جب خاتم الانبیاء (ص) ائیر ڈیفنس سینٹرل کمانڈ قائم ہوا اور فضائی دفاع کو ایران کی فضائیہ سے الگ کر کے ایک آزاد اور خودمختار شاخ کی حیثیت دی گئی۔
یہ فیصلہ ملکی فضائی دفاع پر زیادہ توجہ دینے اور ایران کے فضائی دفاعی نیٹ ورک کو یکجا اور مربوط بنانے کے لیے کیا گیا۔ اس فیصلے نے فضائی سرحدوں کے دفاع میں اس فورس کی اسٹریٹجک اہمیت کو مزید واضح کر دیا۔
یہ دن ایرانی عوام اور نئی نسل کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ فضائی دفاع کی شاندار کارکردگی کو یاد کریں، خاص طور پر دورانِ دفاعِ مقدس (ایران–عراق جنگ) اور بعد کے ادوار میں، جب ائیر ڈیفنس سسٹم نے ملک کے معاشی تحفظ اور بنیادی ڈھانچوں کی حفاظت میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ایران کے فضائی دفاعی نظام، جس میں جدید سسٹمز مثلا باور-۳۷۳، صیاد اور مرصاد میزائل شامل ہیں، نے مختلف سطحوں پر مؤثر کردار ادا کیا۔ یہ نظام نہ صرف اہداف کی بروقت شناسائی اور سراغ لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ دشمن کے فضائی حملوں کو ناکام بنا کر جنگِ الیکٹرانیک میں بھی نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ حالیہ مشقوں میں اس نے 90 فیصد سے زائد اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا، جو اس کی عملی قابلیت کا مظہر ہے۔ آرمی اور سپاہ کے درمیان ہم آہنگی نے اسے ایک جامع اور مربوط دفاعی ڈھال بنایا ہے۔
12 روزہ جنگ؛ سخت آزمائش
یہ جنگ 23 جون کی صبح شروع ہوئی، جب صہیونی حکومت نے امریکی پشت پناہی کے ساتھ ایران کی حساس ایٹمی تنصیبات نطنز اور فردو پر حملے کیے۔ ان حملوں میں جدید ٹیکنالوجی، سائبر ہتھیار اور ہیکنگ کے ذریعے رابطہ نظام کو نشانہ بنایا گیا۔ دشمن نے ایرانی کمانڈروں اور سائنسدانوں کو شہید کرکے ایران کے عسکری اور ایٹمی پروگرام کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔
یہ جنگ صرف کلاسیکی فضائی حملوں تک محدود نہیں تھی بلکہ اس میں Shadow War، Fifth Column اور ٹیکنالوجی پر مبنی جدید حربے بھی شامل تھے۔ ایران کا فضائی دفاع نہ صرف آسمان کی حفاظت میں مصروف رہا بلکہ اسے دشمن کے ڈرونز، کواڈکاپٹرز اور اندرونی جاسوسوں کے حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
جنگ کے ابتدائی دنوں میں ایران کے ائیر ڈیفنس سسٹم پر شدید دباؤ رہا۔ غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کے آلہ کاروں نے اندرونی طور پر fifth column کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے GPS سے لیس نیم خودکار ڈرونز کے ذریعے فضائی دفاع کے کمانڈ مراکز، ایٹمی سائنسدانوں کے گھروں، کمانڈروں کی رہائش گاہوں اور حساس مراکز کو نشانہ بنایا۔ بعض ڈرونز نے سویلین شکل میں آکر یا رات کی تاریکی کا فایدہ اٹھاکر دفاعی رڈار کو دھوکہ دیا اور سافٹ ویئر و رڈار سسٹم کو نقصان پہنچایا۔
اس جنگ میں ایران نے اپنے اہم کمانڈروں کو بھی کھو دیا جن میں چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل حمد باقری، سپاہ پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی، خاتم الانبیاء ہیڈکوارٹر کے کمانڈر میجر جنرل غلامعلی رشید، سپاہ پاسداران کی فضائیہ کے سربراہ جنرل امیرعلی حاجیزاده شامل تھے۔
یہ تمام شخصیات دشمن کے ایجنٹوں کی کارروائیوں اور ٹارگٹڈ حملوں میں شہید ہوئیں۔ ان کی قربانیاں ایران کے لیے ایک بڑا نقصان ہیں، مگر یہ اس بات کا بھی ثبوت ہیں کہ دشمن نے نہ صرف فوجی محاذ پر بلکہ نفسیاتی اور داخلی میدان میں بھی بھرپور کوشش کی۔
ائیر ڈیفنس سسٹم کی بحالی اور دشمن پر کامیاب حملے
ایران کے ائیر ڈیفنس سسٹم نے 12 روزہ جنگ میں دشمن کے مختلف حملوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا اور اپنے دفاعی نظام کو فضائی سرحدوں کا فولادی سپر ثابت کیا۔ دشمن کا بنیادی مقصد ایران کے دفاعی حصار کو مشغول رکھنا اور بڑے اسٹریٹجک خطرات سے ان کی توجہ ہٹانا تھا۔ ابتدائی پانچ دنوں میں درجنوں ڈرونز شناسائی کے بعد تباہ کیے گئے، جن میں سے کچھ اندرونی ایجنٹوں کے ذریعے اڑائے گئے تھے۔ اس کے ساتھ دشمن نے سائبر حملے اور الیکٹرانک وار فیئر کے ذریعے کمانڈ اینڈ کنٹرول نیٹ ورک کو متاثر کرنے کی کوشش کی، لیکن فوری اقدامات سے ان حملوں کو ناکام بنایا گیا۔ چند دن بعد ایرانی ڈیفنس سسٹم نے دفاعی پوزیشن سے نکل کر فعال حکمت عملی اپنائی۔ انٹیلی جنس کارروائیوں کے ذریعے اندرونی جاسوسی نیٹ ورک کو بھی ناکارہ بنایا گیا۔
جنگ کے دوسرے مرحلے میں اسرائیلی ساختہ ڈرونز ہرمیس 450 اور ہرمیس 900 ایرانی دفاعی نظام سوم خرداد اور طبس کے ذریعے گرائے گئے۔ رپورٹس کے مطابق کم از کم چار ایف-35 لڑاکا طیارے بھی ریڈارز اور باور-373 میزائل سسٹم کی زد میں آئے اور مار گرائے گئے۔ دشمن کی خاموشی اس نقصان کی تصدیق کرتی ہے۔
اگرچہ دفاعی نظام نے شاندار کارکردگی دکھائی، لیکن کچھ کمزوریاں بھی سامنے آئیں، جیسے بعض علاقوں میں الیکٹرانک کوریج کی کمی اور بار بار ہونے والے سائبر حملوں کا دباؤ۔ یہ خامیاں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ مزید ہوشیاری اور اپ گریڈ کی ضرورت ہے۔
سخت ترین پابندیوں کے باوجود ایران نے ملکی صلاحیتوں پر انحصار کرتے ہوئے اپنی دفاعی طاقت منوائی۔ 8 سالہ جنگ اور 45 سالہ پابندیوں نے اس قوم کو وہ قوت بخشی جو آج کامیابی کی بنیاد بنی۔ ایران کے بیلسٹک میزائل حملوں نے دشمن کے چاروں شانے چت کردیے اور ماہرین نے تسلیم کیا کہ جنگ میں ایران کا پلڑا بھاری رہا۔
ائیر ڈیفنس سسٹم کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت
12 روزہ جنگ نے یہ بھی ثابت کیا کہ ائیر ڈیفنس سسٹم ایران کے لیے فولادی سپر ہے جو دشمن کے طوفان کو روک سکتا ہے۔ مستقبل میں دفاعی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے اقدامات میں مصنوعی ذہانت سے لیس کرنا، مزاحمتی بلاک کے ساتھ تعاون بڑھانا، مزید فوجی مشقیں کرنا اور سائبر سکیورٹی کو مضبوط بنانا شامل ہیں۔ ان اقدامات سے نہ صرف شہداء کے خون کا حق ادا ہوگا بلکہ ایران کے محفوظ مستقبل کی حفاظت بھی یقینی ہوگی۔
آپ کا تبصرہ