29 اگست، 2025، 4:06 PM

فلسطین فاؤنڈیشن کے سربراہ کی مہر نیوز سے خصوصی گفتگو:

مقاومتی محاذ استعماری سازشوں کو ناکام بنائے گا

مقاومتی محاذ استعماری سازشوں کو ناکام بنائے گا

ڈاکٹر صابر ابو مریم نے کہا کہ آج ایک طرف فلسطین میں بھوک اور قحط کے ذریعے لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے، دوسری جانب مصر اردن سعودی عرب ترکی دیگر ملکوں کے پاس خوراک پانی سمیت دیگر چیزیں موجود ہیں لیکن وہاں نہیں پہنچایا جا رہا۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اربعین حسینی علیہ السلام آج کے دور میں محض ایک روحانی اور مذہبی اجتماع نہیں رہا بلکہ یہ عالم اسلام کے موجودہ مسائل خصوصا مقاومت اور مسئلہ فلسطین سے جڑ کر ایک عظیم سیاسی و فکری اجتماع بن چکا ہے۔ نجف سے کربلا تک کروڑوں زائرین کی مشی امام حسینؑ سے عشق و وفا کا اظہار ہونے کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کی یکجہتی اور مزاحمت کی بھی تصویر پیش کرتی ہے۔ یہ عظیم اجتماع دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ کربلا کا پیغام صرف ماضی کی تاریخ نہیں بلکہ آج بھی ہر دور کے یزید کے مقابلے میں حق و باطل کا معیار ہے۔

اربعین کا یہ مارچ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ امت اسلامی کے مسائل الگ الگ نہیں ہیں، بلکہ فلسطین کی مظلومیت اور مزاحمتی محاذ کی جدوجہد براہ راست اسی حسینی مکتب سے وابستہ ہے جس نے ظلم و استکبار کے خلاف قیام کا درس دیا۔ اربعین کی مشی میں فلسطین اور دیگر مقاومتی تحریکوں کا ذکر ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ اجتماع صرف عزاداری نہیں بلکہ امت کے لیے بیداری اور مزاحمت کا ایک بین الاقوامی پلیٹ فارم ہے۔ اس عظیم اجتماع سے ایک طرف امت مسلمہ کے اندر وحدت و اخوت کو فروغ ملتا ہے تو دوسری جانب یہ عالمی استکباری طاقتوں کے خلاف مظلومین کے حق میں مضبوط آواز بن کر ابھرتا ہے۔ یوں اربعین حسینؑ آج کے دور میں اسلامی مقاومت اور فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کے ساتھ براہ راست جڑا ہوا ایک زندہ استعارہ ہے۔

مہر نیوز نے فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر صابر ابومریم سے اربعین مشی اور امت مسلمہ کے مسائل مخصوصا فلسطین اور مقاومتی محاذ کے حوالے سے گفتگو کی ہے جس کا متن قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے:

مہر نیوز: اربعین حسینی کی مشی کے دوران مسئلہ فلسطین کو کتنی اہمیت ملی؟

ڈاکٹر صابر ابو مریم:  اس سال اربعین امام حسین علیہ السلام کے موقع پر جو نجف سے کربلا تک مواکب برقرار ہوئے ان میں خاص طور پر جو چیز سب سے زیادہ نظر آئی ہے وہ مسئلہ فلسطین تھا۔ اس مسئلے کو بڑے پیمانے پر اجاگر کیا گیا اور خاص طور پر جو اس دوران موکب نداء الاقصی جو پول نمبر 833 پر لگایا گیا تھا۔ وہاں فلسطین سے علماء تشریف لا کر زائرین ابا عبداللہ کی خدمت میں مصروف تھے اور ساتھ ساتھ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے زائرین کرام کو شعور بھی فراہم کیا جا رہا تھا اور اس طرح کے دیگر اور بھی مواکب ہیں جہاں پر فلسطین کے حوالے سے تصویر نمائشیں، شہداء کی تصویریں اور مختلف سرگرمیاں انجام دی گئیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہترین موقع ہے کہ جب دنیا بھر سے کروڑوں عاشقان امام حسین علیہ السلام تشریف لاتے ہیں اور کربلا کی طرف پیدل مارچ کرتے ہیں اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی ذات مقدسہ ان کا مرکز و محور ہے اس کے ساتھ ہی فلسطین جو مظلومیت کی ایک واضح ترین مثال ہے اور ساتھ ساتھ ہمیں حضرت امام حسین علیہ السلام کی ذات مقدسہ سے جو درس ملتا ہے وہ یہی ہے کہ ہر ظالم کے خلاف قیام کرنا اور مظلوم کی حمایت کرنی ہے تو میرا خیال ہے کہ دنیا میں اس وقت فلسطینیوں سے زیادہ کوئی مظلوم موجود نہیں ہے لہذا یہ ایک بہترین اقدام ہے اور اس کو مزید اگے اسی طرح بڑھانا چاہئے۔ یہ نہایت ہی خوش آئند ہے کہ اربعین کے دن یہاں کربلا سے اس کی طرف ایک سمبولک مارچ بھی شروع کیا گیا ہے اور ان شاءاللہ امید ہے کہ مستقبل میں جس طرح نجف سے کربلا چل کر یہ زائرین آتے ہیں ان شاءاللہ ایک دن آئے گا کہ یہاں کربلا سے حضرت امام حسین علیہ السلام سے عہد کرنے کے بعد یہاں سے ان شاءاللہ یہ کروڑوں کا قافلہ جو ہے وہ بیت المقدس کی ازادی کے لیے بھی روانہ ہوگا۔

 مہر نیوز: عالمی طاقتوں کی جانب سے زائرین اربعین کے راستے جو رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں، ان کی کیا وجوہات ہیں؟

ڈاکٹر صابر ابو مریم: اصل میں جو عالمی استعماری طاقتیں ہیں خاص طور پر امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ ہیں یہ سارے اس وقت دنیا کے اندر یزیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس تاریخی مسئلے کو ہم اس مثال سے سمجھیں کہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھی ان کی اولاد ان کے باوفا صاحب کی مثال ہے۔ یزیدی خیموں کے اندر خوراک پانی اور مختلف ضروریات زندگی موجود تھیں لیکن حضرت اباعبداللہ الحسین علیہ السلام تک انہوں نے نہیں پہنچنے دیا۔ آج یہ جتنی استکباری حکومتیں اور ان کی ایجنٹ عرب اور غیر عرب حکومتیں ساری کی ساری وہی یزیدی کردار ادا کر رہی ہیں جو 61 ہجری میں یزیدی لشکر نے ادا کیا تھا۔ آج ایک طرف فلسطین میں بھوک اور قحط کے ذریعے لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے اطراف میں خوراک پانی ہر چیز مصر اردن سعودی عرب ترکی دیگر ملکوں کے پاس موجود ہیں لیکن وہاں نہیں پہنچایا جا رہا دوسری طرف یہ جو اربعین ہیں جو دنیا کے حریت پسندوں کے لیے ایک استعارہ ہے، ایک شعار ہے، حریت کا ایک بہترین درس ہے، اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے استکباری طاقتیں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے دنیا بھر میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کرنی ہیں۔ یہ رکاوٹیں ہمیشہ سے رہی ہیں لوگوں نے اپنی جانیں قربان کرکے اپنے جسم کے ٹکڑے کٹوا کر بھی اس راستے پر آئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اج کے یزید بھی کل کے یزید کی طرح پوری طرح شکست کھارہے ہیں اور مزید شکست ہوگی۔ نہ اس کو پہلے کوئی روک سکا تھا اور نہ ہی آئندہ روک سکے گا۔

مہر نیوز: پاکستانی زائرین جو اس سال نہیں پہنچے، ان کی کتنی کمی محسوس کی گئی؟

ڈاکٹر صابر ابو مریم: ظاہر ہے کہ پاکستان کے اندر جو سیکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے وہاں پر جو حالات سامنے آئے ہیں کہ جس کی وجہ سے حکومت نے کچھ پابندیاں لگائیں۔ اس کی وجہ سے بہت بڑی تعداد یہاں پر آنے سے قاصر رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ لاکھوں افراد ہیں جو بائی روڈ زیارت کے لئے آتے ہیں کیونکہ ہر شہری استطاعت نہیں رکھتا کہ وہ لاکھوں روپے کے ٹکٹ کرکے یہاں پر آئے بنابریں ان کی کمی یہاں پر محسوس کی گئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت پاکستان کو آئندہ کے لیے قبل از وقت پلاننگ کرنا چاہئے۔ یہ شہریوں کے رائٹس ہیں کہ انہیں حقیقی حقوق دیے جائیں تاکہ وہ آزادی کے ساتھ اپنے عقائد کے مطابق عبادت کریں۔ لہذا یہ حکومت کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ ان حقوق کا تحفظ کرے تو میرا خیال ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ آئندہ کے لیے اس طرح کے مسائل کو پیدا ہونے سے پہلے ہی صحیح طریقے حل نکالے اور لوگوں کو فیسلیٹیٹ کرے۔ کسی چیز کو بند کرنا یا پابندی لگانا کسی بھی وہ مسئلے کا حل نہیں ہوسکتا بلکہ حل یہ ہوتا ہے کہ مل کر فیسلیٹیٹ کیا جائے۔ مسائل کا حل نکالا جائے۔

مہر نیوز: نتن یاہو کا گریٹر اسرائیل کے حوالے سے بیان سامنے آیا، پاکستان نے بھی اس کی مذمت اور مخالفت کی، اس حوالے سے کیا کہیں گے؟

ڈاکٹر صابر ابو مریم: واضح سی بات ہے کہ امریکی حکومت گذشتہ کئی سالوں سے خطے کے اندر خاص طور پہ جو ویسٹ ایشیا ہے اور ساؤتھ ایشیا یہاں کی حکومتوں کو توڑنا چاہتی ہے۔ ان کا یہ پلان اب سب کے سامنے آچکا ہے جو آج سے 25 سال پہلے آغاز کیا گیا تھا اور اس پلان کے مطابق انہوں نے تمام ان عرب اور غیر عرب ممالک کو چھوٹے چھوٹے کمروں میں تقسیم کرنا ہے۔ خطے کے ممالک کو چھوٹے چھوٹے ٹکروں میں تقسیم کرنے کے بعد کہیں پانی کا مسئلہ لانا ہے کہیں سرحدوں کا مسئلہ پیدا کرنا ہے اور سب سے بڑھ کر فرقہ واریت اور لسانیت جیسے مسائل کو ہوا دینا ہے۔ شام کے اندر اس وقت جو کچھ ہوا ہے اور جس حکومت کو وہ لائے ہیں اور اس کے لانے کے بعد جو اس وقت دیکھا جارہا ہے وہاں پر چار پانچ قسم کی تقسیم ہے۔ یہ وہ امریکی منصوبہ ہے جس کے تحت وہ اس خطے کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں توڑ کر دور سے بیٹھ کر کنٹرول کرنا چاہتس ہے اور وہ غاصب اسرائیل کے ذریعے ایک چوکیدار کا کام لینا چاہتا ہے تاکہ ان کو کنٹرول میں رکھے اور اسرائیل سے ڈرا کر خطے کے ممالک اور اقوام کو خوفزدہ رکھے۔ یہ ان کا ایک شیطانی منصوبہ ہے۔ 25 سال پہلے انہوں نے اس کا آغاز کیا تھا اور اس کو نیو مڈل ایسٹ کے نام سے متعارف کرایا تھا لیکن ابھی تک وہ اس کو بنانے میں ناکام ہیں اور اگے بھی ناکام رہیں گے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ خطے میں جو مزاحمت ہے جو فلسطین، لبنان، عراق، یمن اور خود شام میں بھی کسی نہ کسی حد تک پائی جاتی ہے، اسی نے ان ساری سازشوں کو روک کے رکھا ہوا ہے۔ ان سب سے بڑھ کر ایران کا اپنا جو کردار ہے وہ بہت اہم ہے کہ جس نے اس محور مقاومت کو جوڑ کے رکھا ہوا ہے اور جس کی وجہ سے یہ عالمی استعماری طاقتیں خاص طور پر امریکہ اور یہ غاصب اسرائیل اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام ہیں۔ فی الوقت شام کی مثال ہمارے سامنے ہے لیکن انشاءاللہ جو مزاحمت ہے اس پر ہمیں یقین بھی ہے بھروسہ بھی ہے اور اس بات کی ہمیں پوری امید ہے کہ ان شاءاللہ ان کی جو سازشیں اور ناپاک عزائم ہیں وہ ناکام ہوں گے۔

News ID 1935089

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha