مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی-محمد اکمل خان: خاموش صبح میں خان یونس کی آبادی میں ویران سڑکوں پر اداسی کی دھند چھائی ہوئی تھی۔مکانوں کی چھتیں خالی اور فضا ایک غیر مرئی سکوت کے حصار میں قید تھی۔ چند فلسطینی صحافی ناصر اسپتال کی چھت پر کیمرے سنبھالے کھڑے تھے۔ وہ براہِ راست دنیا کو دکھانے کی تیاری کر رہے تھے کہ غزہ کی یہ ظلم کی تاریکی میں ڈوبی رات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ٹوٹی سڑکوں پر دھواں معلق تھا اور سورج کی کرنیں شیشے کے ٹکڑوں پر جھلملا رہی تھیں۔ تھکے ہوئے یہ صحافی، ظلم کی اس طویل رات میں بھی اب بھی اپنی آخری ذمہ داری نبھا رہے تھے تا کہ دنیا کو اس بربریت کے خلاف گواہی دینے کے ساتھ وہ ثبوت اور سچ زندہ رکھا جا سکے جو اس ظلم کے خاتمے میں مددگار ہو۔
اسی لمحے الجزیرہ کے محمد سلامہ اپنا کیمرہ سیدھا کرنے کے لیے جھکے ہی تھے کہ ایک تیز دھماکہ ہوا۔ پہلا میزائل ناصر اسپتال کی چھت پر آن گرا۔ لمحوں میں شیشے کے ٹکڑے، آلات کے پرزے اور انسانی جسموں کے حصے گرد کی طرح فضا میں بکھر گئے۔ جیسے ہی ساتھی صحافی اور طبی عملہ زخمیوں کو ملبے سے نکالنے پہنچے دوسرا میزائل وہیں آن گرا۔ یہ ’’دوہرے وار ‘‘ جیسا حملہ تھا ۔ ایسا وار جو نہ صرف زخمیوں کو ختم کرتا ہے بلکہ گواہوں کو بھی خاموش کر تے ہوئے کہانی کو بھی منوں مٹی تلے دفن کر دیتا ہے۔
چند لمحوں میں چھ صحافی شہید ہو گئے: محمد سلامہ (الجزیرہ)، حسام المصری (رائٹرز)، مریم ابو دقہ (ایسوسی ایٹڈ پریس)، معاذ ابو تہہ، احمد ابو عزیز اور حسن دوہان (الحیات الجدیدہ)۔ ان کے کیمرے خون آلود اور ٹوٹے ہوئے چھت پر بکھرے تھے۔ اس حملے میں 20 دیگر افراد بھی شہید ہوئے ۔ اسٹریچرز پر پڑے مریض، دوائیں اٹھائے نرسیں اور ایمبولینس کا سامان لیے پیرامیڈکس۔ یہ لوگ اس لیے نہیں مارے گئے کہ کہاں موجود تھے بلکہ اس لیے مارے گئے کہ یہ کیا بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔
یہ حملہ اتفاقی حادثہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک ظالمانہ منصوبہ تھا۔ جب میزائل سب سے پہلے اُن ہاتھوں کو نشانہ بنائیں جو کیمرے تھامے ہوں، تو یہ کبھی اتفاق نہیں کہلائے گا ۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے اب تک 270 سے زائد صحافی غزہ میں شہید ہو چکے ہیں جو جدید تاریخ میں صحافت کے لیے سب سے خونی دور ہے۔ ناصر اسپتال کا یہ حملہ کوئی الگ واقعہ نہیں بلکہ ایک منظم مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد غزہ میں روا ظلم کی اس کہانی کو محفوظ کرنے کو روکنا اور اس ظؓلم کے خلاف آواز بلند کرنے والے گواہوں کو ملبے تلے دفن کر دینا ہے۔
سچ کی ان آوازوں پر یہ حملے میزائلوں سے بہت پہلے شروع ہو چکےتھے۔ ’بیلنگ کیٹ، انٹرسپٹ اور الجزیرہ ڈیجیٹل یونٹ ‘کی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ فلسطینی صحافیوں کو پہلے ’’حماس کے کارندے‘‘ قرار دے کر ان کی شناخت ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ ان صحافیوں کی لائیو اسٹریمز ڈیلیٹ ہوئیں۔ سوشل میڈیا پر اکاؤنٹس شیڈوبین ہوئے اور ان کی ساکھ کو مٹایا گیا۔ یہ ’’ڈیجیٹل کردار کشی‘‘ کوئی اتفاق نہیں تھی بلکہ یہ اُن صحافیوں کی جان لینے کی تیاری تھی۔ جب ان کی آوازیں الگورتھمز میں دبائی گئیں تو جسمانی موت کو بھی ختم کرنا آسان ہو گیا۔
یہ بیانیہ خود ریاست کی سطح پر پھیلایا گیا۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیل ہگاری نے کھلے عام فلسطینی صحافیوں کو ’’حماس کا سہولت کار‘‘ قرار دیا۔ یہی اصطلاحات مغرب کے انسدادِ دہشت گردی بیانیے سے جوڑ کر عالمی رائے عامہ کو گمراہ کیا گیا۔ میٹا اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے اپنے ڈی اینڈ آئی قوانین کے تحت درجنوں اکاؤنٹس بند کر دیے۔ لائیو فوٹیج ہٹادی اور صحافیوں کو اس ریاستی جبر کے مقابل تنہا چھوڑ دیا۔ یوں حملے سے پہلے ان کی آواز بھی ختم کی گئی اور حملے کے بعد تصویر بھی۔
اب ناصر اسپتال جیسے مراکز جو کبھی محفوظ پناہ گاہیں سمجھے جاتے تھے مقتل میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ جہاں مریض زخمی حالت میں پڑے ہیں جہاں کیمرے سچ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں انہی جگہوں پر بمباری ہو رہی ہے۔ یہ محض بنیادی سہولیات کے مراکز پر حملہ نہیں بلکہ یہ ظلم کے خلاف گواہی دینے کے اختیار پر حملہ ہے۔ جب گواہ ختم ہو جائیں تو قتل عام اعدادوشمار کی بحث بن جاتا ہے۔ جب تصاویر نہیں ہوتیں تو اجتماعی قبریں افواہوں میں بدل جاتی ہیں۔ جب کوئی ریکارڈ محفوظ نہیں رہتا تو تاریخ گونگی ہو جاتی ہے۔
جب کیمرے بند ہوتے ہیں تو انصاف رک جاتا ہے۔ ہر لائیو اسٹریم، ہر تصویر، ہر ریکارڈ عدالت کے ممکنہ ثبوت ہوتے ہیں۔ گواہوں کو مٹا کر اسرائیل صرف کہانی نہیں بدل رہا بلکہ انصاف کے امکان کو بھی دفن کر رہا ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری ساکس کے مطابق یہ ’’سچ پر حملہ‘‘ ہے، جبکہ اقوامِ متحدہ کی نمائندہ فرانسسکا البانیزے خبردار کرتی ہیں کہ اس قتلِ عام میں ’’نسل کشی کے منصوبے‘‘ کی بازگشت سنائی دیتی ہےجس کا مقصد متاثرین اور ان کی تاریخ دونوں کو مٹا دینا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے ان حملوں کی سخت مذمت کی ہے۔ سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن دجارک نے کہا کہ ناصر اسپتال پر حملہ فوری عالمی تحقیقات کا متقاضی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یو این سیکریٹری جنرل کے پاس ازخود کمیشن بنانے کا اختیار نہیں مگر اسرائیل پر لازم ہے کہ وہ موجودہ قوانین کے تحت صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ دجارک نے متنبہ کیا: ’’غزہ میں اب کوئی محفوظ جگہ نہیں بچی۔
یہ جبر کوئی نیا نہیں ہے۔ 10 اگست 2025 کو بھی ایک سفید میڈیا ٹینٹ کے نیچے الجزیرہ کے 28 سالہ انس الشریف اپنے ناظرین کے لیے رپورٹ تیار کر رہے تھے کہ اسرائیلی میزائل نے سب کچھ خاکستر کر دیا۔ ٹینٹ میں کوئی زندہ نہ بچا ۔ نہ صحافی، نہ کہانیاں نہ وہ الفاظ جنہیں وہ محفوظ کرنا چاہتے تھے۔
حملے سے چند لمحے پہلے انس نے اپنا آخری پیغام ریکارڈ کیا تھا کہ اگر یہ الفاظ آپ تک پہنچیں تو جان لیجیے کہ وہ مجھے اور میری آواز دونوں کو خاموش کر چکے ہیں۔
آج بھی غزہ کی چھتوں اور نیوز رومز میں اُس کی آواز گونجتی ہے۔
ناصر اسپتال کی چھت سے لے کر الشفا اسپتال کے ٹینٹ تک، یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ صحافی حادثے میں نہیں منظم منصوبہ بندی سے مارے جا رہے ہیں۔ ان کے کیمرے سچ اور انصاف کے لئے کھڑے ہیں اور جان لیں کہ گواہ ختم ہوں تو تاریخ سودے بازی بن جاتی ہےآرکائیوز جل جائیں تو انصاف محض آپشن رہ جاتا ہے۔
آج چھ اور نام اُس طویل فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔ ان کے کیمرے کبھی نہیں اٹھیں گے ان کی ڈائریاں ادھوری رہیں گی ان کی نشریات کبھی ناظرین تک نہیں پہنچ پائیں گی۔ مگر ان کی خاموشی سب سے بڑی گواہی ہے۔ شاید الشفا کے ملبے کے نیچے ہوا اب بھی انس الشریف کے آخری الفاظ لیے پھر رہی ہے وہ الفاظ جو دبائے نہیں جا سکتے، دفن نہیں ہو سکتے، اور بھلائے نہیں جا سکتے۔
مگر جب آخری گواہ بھی قتل کر دیے جائیں گے تو صرف صحافت نہیں مرے گی بلکہ سچ بھی ان کے ساتھ دفن ہو جائے گا۔
آپ کا تبصرہ