24 اگست، 2025، 11:29 AM

پاکستانی صحافی کی مہر نیوز کے لیے خصوصی تحریر:

غزہ میں نسل کشی، اسرائیلی خفیہ ادارے کے سابق سربراہان کا اعتراف

غزہ میں نسل کشی، اسرائیلی خفیہ ادارے کے سابق سربراہان کا اعتراف

غزہ کی راتیں اب ستاروں کی روشنی سے نہیں بلکہ آگ کے شعلوں سے روشن ہیں۔  دھماکوں نے گلیوں کا سکون چھین لیا ہےاور پورے کے پورے محلے زمین بوس ہو چکے ہیں۔ اسپتال ملبے کے ڈھیر میں بدل گئے ہیں جہاں زخمی اپنی آخری سانسوں تک علاج کا انتظار کرتے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی-محمد اکمل خان: غزہ کی راتیں اب ستاروں کی روشنی سے نہیں بلکہ آگ کے شعلوں سے روشن ہیں۔  دھماکوں نے گلیوں کا سکون چھین لیا ہےاور پورے کے پورے محلے زمین بوس ہو چکے ہیں۔ اسپتال ملبے کے ڈھیر میں بدل گئے ہیں جہاں زخمی اپنی آخری سانسوں تک علاج کا انتظار کرتے ہیں جو کبھی نہیں آتا۔ والدین اپنے بچوں کی لاشیں سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ رپورٹر آخری خبریں نشر کرتے کرتے خود خاموش ہو گئے ہیں۔ خوراک کی گاڑیاں روک دی گئی ہیں اور لوگ بھوک سے نڈھال ہو کر زندگی کی بقا کے لیے روٹی کے ٹکڑوں کے محتاج ہو گئے ہیں۔

قابض اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس کے حملے صرف جنگجوؤں پر ہوتے ہیں، لیکن زمینی حقائق کچھ اور کہانی سناتے ہیں۔ اسکول ملبے کا ڈھیر ہیں مساجد تباہ، اپارٹمنٹس زمین بوس اور پناہ گزین کیمپ مٹی میں دفن ہو چکے ہیں۔ عام شہری سب سے زیادہ نشانہ بنے ہیں۔ اب تک  63 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے تھے، جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق یہ تعداد 80 ہزار سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔منظر عام پر آنے والی  اسرائیلی خفیہ فوجی دستاویزات  کے مطابق 83 فیصد شہداء عام شہری ہیں۔ یہ جنگ نہیں، یہ گھروں کے اندر نسلوں کے مٹنے کی کہانی ہے۔

یہ المیہ اچانک رونما نہیں ہوا۔ برسوں پہلے اس کی پیش گوئی کی جا چکی تھی۔ یہ انتباہ نہ فلسطینیوں نے دیا، نہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے، بلکہ یہ وارننگ  وہ لوگ دے رہے تھے جو خود برسوں تک اسرائیل کی سیکیورٹی مشینری کے سربراہ رہے ہیں۔

2012 میں اسرائیلی فلم ساز ڈرو مورہ نے دستاویزی فلم گیٹ کیپرز ریلیز کی۔ اس دستاویزی فلم میں اسرائیلی خفیہ ادارے شِن بیت کے چھ سابق سربراہوں کے انٹرویوز شامل تھے۔ یہ لوگ اسرائیل مخالف نہیں تھے بلکہ وہ افراد تھے جنہوں نے دہائیوں تک سیکیورٹی پالیسی بنائی، منصوبے تیار کیے اور آپریشنز کی نگرانی کی۔ لیکن جب انہوں نے کھل کر بات کی تو اپنے فیصلوں کا دفاع نہیں کیا بلکہ اسرائیلی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی۔

امی ایالون جو 1996 سے 2000 تک شِن بیت کے سربراہ رہے، نے وہ اعتراف منظر عام پر لائے جو آج غزہ کے ملبے پر سچ ثابت ہو رہےہیں۔  دستاویزی فلم میں ان کے الفاظ تھے کہ ’’ہم ہر جنگ جیتتے ہیں، مگر امن ہار جاتے ہیں۔‘‘انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیل کی بے پناہ فوجی طاقت، محاصرے اور فضائی حملے کبھی مستقل سلامتی نہیں دے سکتے۔

 یاکوف پیری سمیت دیگر سابق سربراہان بھی برسوں سے یہ کہتے آ رہے تھے کہ طاقت کا راستہ ناکامی کی طرف لے جاتا ہے۔ ہر حملہ تشدد کے ایک نئے دائرے کو جنم دیتا ہے۔ ہر تباہ گھر نفرت کا ایک نیا بیج بوتا ہے۔ ہر شہادت اس سرزمین کو مزید اس مقام کی طرف دھکیلتی ہے جہاں بموں کی آواز ہی واحد زبان بن جاتی ہے۔

اویراہم شالوم جو 1980 کی دہائی میں شِن بیت کے سربراہ تھے، نے ایک چونکا دینے والا اعتراف کیا تھا۔’’اسرائیل سفاک ہو چکا ہے۔ ہم ظالم بن گئے ہیں حتیٰ کہ اپنے لیے بھی۔ ہم اب کئی پہلوؤں سے جرمنوں کی طرح ہو گئے ہیں۔‘‘ یہ الفاظ اسرائیل کے ایک اعلیٰ ترین سیکیورٹی سربراہ کے تھے۔ یہ ایک غیر معمولی اعتراف تھا، ایک سچائی جو اسرائیلی پالیسی سازوں اور ان کے عالمی حمایتیوں کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی تھی۔ مگر یہ انتباہ بھی نظرانداز کر دیا گیا۔

ماضی میں غاصب اسرائیلی کی جنگی مشینری چلانے والے ان افراد  نے دنیا کو بتایا کہ  قبضہ کبھی سلامتی کے لیے نہیں  ہوتابلکہ کنٹرول کے لیے کیا جاتا ہے۔ دہائیوں کی فوجی کارروائیوں، ٹارگٹ کلنگز، چیک پوسٹس اور ناکہ بندیوں نے کسی مستقل تحفظ کو جنم نہیں دیا۔ ان پالیسیوں نے فلسطینیوں کو بے گھر  کر دیا، خاندانوں کو اجاڑ دیا اور ان کے دکھ میں اضافہ کیا۔ دوسری طرف خود اسرائیلی معاشرہ بھی خوف، مزاحمت اور انتقام کے ایک نہ ختم ہونے والے دائرے میں قید ہو کر رہ گیا ہے۔

آج   مغرب کی غیر مشروط حمایت پر اسرائیلی حکومت نے امن کے دعوے بھی ترک کر دیے ہیں۔ بھوک کو ہتھیار بنا لیا گیا ہےاور فلسطین کی بقا کو سودے بازی کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پانچ لاکھ سے زائد فلسطینی قحط کے خطرے سے دوچار ہیں۔ پانچ سال سے کم عمر ہر چھٹا بچہ شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔ شمالی غزہ مکمل قحط کی کیفیت میں داخل ہو چکا ہے۔ کم از کم 281 افراد بھوک سے جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں درجنوں معصوم بچے شامل ہیں۔ لوگ ریلیف کے ٹرکوں کے گرد جمع ہو جاتے ہیں، لیکن کبھی کبھار یہ امید بھی موت میں بدل جاتی ہے۔ ایک دل دہلا دینے والے واقعے میں 33 فلسطینی اس وقت شہید ہوئے جب وہ امدادی گاڑیوں سے کھانا لینے پہنچے تھے۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اس صورتحال کو “انسانیت کی ناکامی” قرار دیا ہے۔ لیکن حقیقت اس سے زیادہ تلخ ہے۔ یہ صرف انسانی ہمدردی کی ناکامی نہیں بلکہ قیادت، سفارت کاری اور انصاف کے عالمی نظام کی مکمل شکست ہے۔

یاکوف پیری نے گیٹ کیپرز  نامی اس دستاویزی فلم میں کہا تھا ’’فوجی طاقت سے امن قائم نہیں ہوتا، بات چیت ضروری ہے۔‘‘ لیکن آج اسرائیل نے مذاکرات کا دروازہ بند کر دیا ہے۔ اعتدال پسند آوازیں خاموش کر دی گئی ہیں۔ اختلافِ رائے کو جرم بنا دیا گیا ہے۔ عالمی برادری کی اپیلیں مسترد کر دی گئی ہیں۔ نتیجہ ایک ایسا انسانی المیہ ہے جس کی گونج آنے والی نسلوں تک سنائی دے گی۔

فلم میں سابق سربراہ کارمی گلون نے بتایا تھا کہ ’’قبضے میں کوئی اخلاقیات نہیں ہوتیں۔ وہاں صرف کنٹرول باقی رہ جاتا ہے۔‘‘ان کے یہ الفاظ آج غزہ کی حقیقت پر مہر ثبت کرتے ہیں۔ دنیا معصوم بچوں کو بھوک سے مرتے، والدین کو ملبے میں پیاروں کو ڈھونڈتے، اور ڈاکٹروں کو بغیر بے ہوشی کی دوا کے آپریشن کرتے دیکھ رہی ہے۔

آج غزہ صرف جنگ کا میدان نہیں رہا بلکہ یہ  ایک مقتل میں تبدیل ہو  چکا ہے۔ مغربی حکومتوں کی خاموشی، جانبدار میڈیا بیانیے اور سفارتی بے حسی نے اس المیے کو مزید ہولناک بنا دیا ہے۔اسرائیلی خفیہ اداروں کے سربراہ بھی اس ظلم پر  خاموش نہیں رہے اور ہم بھی خاموش نہیں رہ سکتے۔ ان کے الفاظ یاد دلاتے ہیں کہ یہ قتلِ عام صرف طاقت کی ہوس میں کیا گیا ہے ۔ قبضے اور طاقت پر مبنی پالیسیاں آخرکار اپنی ہی سفاکی کے بوجھ تلے دب جاتی ہیں۔ کوئی ریاست، چاہے کتنی ہی طاقتور ہو، بچوں کی قبروں پر امن قائم نہیں کر سکتی۔

غزہ کو تاریخ کا ایک اور المناک باب نہیں بننے دینا چاہیے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب دنیا کو اسرائیل کے مخالفین نہیں بلکہ اسرائیل کے اپنے گیٹ کیپرز سننے چاہییں۔ وہ لوگ جنہوں نے آنے والے المیے کو برسوں پہلے دیکھ لیا تھا اور خبردار کیا تھا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ان دگرگوں  حالات  کو سنجیدگی سے لیا جائے نسل کشی کے مرتکب  ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جائے اور خاموشی کے بت کو  توڑ دیاجائے۔ بصورتِ دیگر، تاریخ ہمیں بھی اس جرم میں شریک ٹھہرائے گی۔

News ID 1934986

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha