24 جولائی، 2025، 9:44 AM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

غزہ میں بربریت کی انتہا، سلامتی کونسل شریک جرم؛ انسانی حقوق کے دفاع میں عالمی اداروں کی ناکامی

غزہ میں بربریت کی انتہا، سلامتی کونسل شریک جرم؛ انسانی حقوق کے دفاع میں عالمی اداروں کی ناکامی

غزہ میں اسرائیل کی بربریت کا دائرہ بمباری تک محدود نہیں رہی، اقوام متحدہ سمیت عالمی ادارے خاموشی اختیار کرکے خود کو بھی شریک جرم ثابت کررہے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: جولائی 2025 میں ایک لڑکی کی تصویر عالمی ذرائع ابلاغ میں وائرل ہوئی جس کا چہرہ مٹی سے اٹا ہوا تھا، بال بکھرے ہوئے، اور ہاتھ میں ایک خالی دیگ، خوف زدہ نگاہوں سے ایک آدھ پکی ہوئی خوراک کی دیگ کو دیکھ رہی تھی۔ کچھ بچے خالی برتنوں کے ساتھ کراہتے ہوئے ایک خوراک کے ڈرم کی طرف لپک رہے تھے۔ یہ تصویر تنہا ہی پوری دنیا کے ضمیر کا امتحان تھی: کیا اب بھی انصاف کوئی معنی رکھتا ہے؟ کیا انسانی حقوق اب بھی کوئی زندہ نعرہ ہیں؟

آج کا غزہ انسانی ضمیر کے زوال کی ایک مجسم تصویر ہے۔ اسرائیل کی طرف سے غزہ پر مسلط کردہ جنگ صرف بمباری اور توپ خانے تک محدود نہیں رہی۔ یہ جنگ مکمل محاصرے، دانستہ قحط، ہسپتالوں پر حملوں، خوراک کی قطاروں پر بمباری اور بنیادی انفراسٹرکچر کی تباہی جیسے جرائم تک پھیل چکی ہے۔ یہ وہ نسل کشی ہے جو بھوک کے ذریعے بتدریج کی جارہی ہے جسے 1948ء کے کنونشن برائے انسداد نسل کشی کی شق نمبر 3 کے مطابق انسانیت کے خلاف سنگین جرم قرار دیا گیا ہے۔

جولائی 2025 کے اعداد و شمار پہلے سے کہیں زیادہ ہولناک ہیں۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امداد کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں اب تک 59 ہزار سے زائد شہری شہید ہوچکے ہیں، جن میں 17 ہزار سے زیادہ بچے اور 9 ہزار خواتین شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار کسی غیر سرکاری تنظیم کے نہیں بلکہ عالمی ادارۂ صحت جیسے بین الاقوامی اداروں سے تصدیق شدہ ہیں۔

اسرائیل نے روایتی جنگ کے بجائے خوراک کی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ یونیسف کی رپورٹ کے مطابق جون-جولائی کے آخری ہفتے تک صرف انتہائی محدود تعداد میں امدادی خوراک لے جانے والے ٹرک غزہ میں داخل ہوسکے۔ جب کہ بین الاقوامی امدادی ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ عوام کی بقا کے لیے روزانہ کم از کم 300 ٹرک غزہ میں داخل ہونے چاہئیں۔

بچے کھانے کی قطار میں خالی دیگوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، اور گولی کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ صرف گذشتہ ایک ہفتے کے دوران 73 افراد کو خوراک کی تقسیم کی قطار میں براہ راست گولی مارکر شہید کردیا گیا۔ بین الاقوامی اداروں نے باقاعدہ رپورٹ کیا ہے کہ البریج اور بیت لاہیا جیسے علاقوں میں اسرائیلی افواج نے کھانا تقسیم کرنے کی صفوں کو قتل گاہ میں تبدیل کردیا ہے۔

جرائم صرف خوراک تک محدود نہیں۔ پچھلے دنوں غزہ کے یورپی اسپتال اور خان یونس کے نصر اسپتال پر براہ راست حملے کیے گئے۔ نصر اسپتال میں صرف بچوں کا شعبہ فعال تھا۔ ڈاکٹر مروان سلطان جو جنوب غزہ کا واحد فعال کارڈیالوجسٹ تھا، اپنے خاندان سمیت شہید ہوگیا۔ اب تک جنگ کے آغاز سے 1500 سے زائد طبی عملہ کے افراد شہید ہوچکے ہیں۔ 250 سے زائد طبی مراکز تباہ یا ناقابل استعمال ہوچکے ہیں۔ یہاں تک کہ ایمبولینس بھی اسرائیلی فائرنگ سے محفوظ نہیں رہیں۔

اسی دوران پانی کی فراہمی اور نکاسی کے نظام بھی تباہ ہوچکے ہیں۔ آدھے کنویں خراب ہوچکے ہیں اور خونی اسہال اور جلدی انفیکشنز جیسے متعدی امراض مہاجر کیمپوں میں پھیل چکے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے غزہ کی صورتحال کو تصور سے باہر ایک آفت قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود بین الاقوامی اداروں کی خاموشی بمباری سے بھی زیادہ مہلک ثابت ہورہی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے یوکرین بحران پر ایک ہفتے میں کئی ہنگامی اجلاس کیے لیکن غزہ میں قتل عام کے مقابلے میں صرف بے اثر بیانات جاری کیا۔ یہ ادارہ جو عالمی سلامتی اور امن کی علامت ہونا چاہیے تھا، آج صہیونی حکومت کے جرم میں مکمل شریک ہوچکا ہے۔

عالمی ادارے پر امریکہ اور یورپی ممالک کی اجارہ داری ہے جس کی وجہ سے ان کے مفادات کا محافظ ہی بن گیا ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کے خلاف قراردادوں کو بارہا ویٹو کیا اور منظور ہونے نہیں دی۔ اسٹاک ہوم انسٹی ٹیوٹ برائے امن کے مطابق، امریکہ نے 2024 میں اسرائیل کو 4.2 ارب ڈالر سے زائد کی فوجی امداد فراہم کی۔ وہ بم جو اسکول، مساجد اور اسپتال تباہ کر رہے ہیں، امریکی فیکٹریوں میں تیار ہوئے ہیں۔ پھر وہی طاقتیں بین الاقوامی فورمز پر انسانی حقوق کی بات کرتی ہیں۔

غزہ کا بحران صرف علاقائی مسئلہ نہیں رہا بلکہ بین الاقوامی بحران کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ غزہ کی صورتحال موجودہ عالمی نظام کے اخلاقی بحران کی مکمل عکاسی کرتی ہے۔ اگر خوراک کی قطاروں پر بمباری، بیمار بچوں کا قتل اور جان بوجھ کر قحط پیدا کرنے سے بھی بین الاقوامی ادارے متحرک نہ ہوئے تو پھر کیا ہمیں مزید بڑے جرائم کا انتظار کرنا ہوگا تاکہ امن کے محافظ آواز بلند کریں؟

یہ ذمہ داری صرف حکومتوں کی نہیں، بلکہ پوری انسانیت کی ہے۔ یہ درد مسلمانوں کا نہیں، بلکہ انسانیت کا ہے۔ دنیا کے ہر کونے میں ہر آزاد انسان کو خود کو اس فریاد کا حصہ سمجھنا چاہیے۔ لاطینی امریکہ سے مشرقی ایشیا، یورپ سے افریقہ تک یہ جرم عالمی ضمیر کا مشترکہ امتحان ہے۔ وہ ممالک جو سیاسی طور پر خودمختار ہیں، خاص طور پر عرب اور مسلم ممالک، اور ساتھ ہی اسلامی جمہوری ایران جو دہائیوں سے فلسطین کی حمایت کرتا رہا ہے، انہیں پیش پیش ہونا چاہیے۔ قانونی دستاویزات مرتب کرنا، بین الاقوامی فوجداری عدالت میں مقدمات کی پیروی کرنا، سفارتی مزاحمتی اتحاد بنانا اور حتی کہ عام شہریوں کے دفاع کے لیے عسکری مدد فراہم کرنا اس ذمہ داری کا حصہ ہے۔

اس نازک مرحلے پر عوام کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے عملی اقدام کرنا ہوگا۔ عوام کی حمایت کے بغیر یہ کوششیں رنگ نہیں لائیں گی۔ عوام کو اپنی آواز بلند کرنی ہوگی، مظاہرے کرنے ہوں گے، میڈیا پر دباؤ ڈالنا ہوگا اور بین الاقوامی دستخطی مہم شروع کرنی ہوگی کیونکہ اگر غزہ خاموش رہا تو کل نوبت ہم میں سے کسی کی بھی ہو سکتی ہے۔

آج انسانی ضمیر اپنے زمانے کے سب سے بڑے امتحان میں ہے: یا تو بیدار ہوگا یا ہمیشہ کے لیے خاموش ہوجائے گا۔

News ID 1934459

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha