21 جولائی، 2025، 10:48 AM

غزہ کی جانب رواں دواں کشتی حنظلہ پر سوار امدادی کارکن کی مہر نیوز سے گفتگو:

میڈلین کشتی کے بعد حنظلہ، غزہ پر صہیونی جارحیت اور عالمی برادری کی بے حسی پر خاموش نہیں رہ سکتے

میڈلین کشتی کے بعد حنظلہ، غزہ پر صہیونی جارحیت اور عالمی برادری کی بے حسی پر خاموش نہیں رہ سکتے

غزہ کی جانب رواں دواں کشتی پر سوار شعیب نے کہا کہ صہیونی مظالم پر خاموش نہیں رہ سکتے اسی لئے یہ سفر شروع کیا۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: غزہ میں اسرائیلی مظالم اور وحشیانہ حملوں نے انسانی جانوں کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے، مگر اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے اس بحران کے سامنے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں کشتی حنظلہ بحیرہ روم کی راہوں پر روانہ ہوئی ہے تاکہ محاصرے کو توڑ کر غزہ کے مظلوم عوام تک امداد پہنچائی جاسکے اور عالمی ضمیر کو بیدار کیا جاسکے۔ اس حوالے سے مہر نیوز نے کشتی پر سوار شعیب اردو  سے گفتگو کی ہے جس میں انہوں نے اس انسانی اقدام کی اہمیت اور ضرورت پر روشنی ڈالی ہے۔

میڈلین کشتی کو روکنے کے بعد دو ماہ سے بھی کم وقت میں 18 میٹر لمبی کشتی 'حنظلہ' اٹلی کے سسلی کے بندرگاہ سیراکوز سے بحیرہ روم کی طرف روانہ ہو رہی ہے تاکہ غزہ کے محاصرے کو توڑے۔ یہ کشتی "فریڈم فلوٹیلا" کا حصہ ہے، جس میں فلسطین کے حامی اور سرگرم کارکن شامل ہیں جن میں یورپی پارلیمنٹ اور فرانس کے ارکان، رضاکار ڈاکٹرز، صحافی اور عوامی تحریکوں کے کارکن شامل ہیں۔ کشتی کے اندر انسانی ہمدردی کی علامتی امداد جیسے دوائیں، ہلکے سامان اور یکجہتی کے پیغامات رکھے گئے ہیں۔

"حنظلہ" ایک مشہور کارٹون کردار ہے جسے فلسطینی شہید کارٹونسٹ ناجی العلی نے تخلیق کیا تھا۔ یہ کردار ایک ننگے پاؤں پیٹھ موڑے ہوئے بچہ ہے جو ہمیشہ اپنے ہاتھ پیچھے باندھے ہوئے ہوتا ہے۔ ناجی العلی نے اسے فلسطین کے مظلوم عوام، خاص طور پر پناہ گزینوں کی مظلومیت، بے بسی اور مزاحمت کی علامت کے طور پر پیش کیا۔

حنظلہ کی پیٹھ کا دنیا کی طرف ہونا دراصل ایک احتجاج ہے۔ ایک ایسا احتجاج جو دنیا کی ناانصافیوں، غفلت اور منافقت کے خلاف خاموش مگر پراثر پیغام دیتا ہے۔

اب اسی علامت کو کشتی حنظلہ کے ذریعے عملی شکل دی گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ کشتی صرف امدادی سامان لے کر نہیں جا رہی، بلکہ ایک علامتی پیغام بھی لے کر جا رہی ہے۔ اس کشتی پر موجود "حنظلہ" کی علامت پوری دنیا سے کہہ رہی ہے کہ غزہ تنہا نہیں ہے۔ یہ عمل نہ صرف ظلم کے خلاف مزاحمت کا اظہار ہے بلکہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک کوشش بھی ہے۔

مہر نیوز نے "حنظلہ" پر سوار انسانی حقوق کے فعال کارکن شعیب اردو سے ویڈیو گفتگو کی ہے جس میں انہوں نے کشتی، مسافروں کی تفصیلات، سمندر کے خطرات، صہیونی حکومت کی جناب سے میڈلین کشتی کو ضبط کرنے کا تجربہ اور اسرائیلی دھمکیوں کے باوجود اس سفر کو اختیار کرنے کی وجوہات پر روشنی ڈالی ہے۔

ذیل میں انٹرویو کا متن پیش کیا جاتا ہے:

مہر نیوز: آپ کشتی کے ساتھ ہی موجود ہیں، ہے نا؟

شعیب اردو: جی ہاں۔

مہر نیوز: آپ کشتی دکھا سکتے ہیں؟

شعیب اردو: بالکل۔ جب مقامی لوگ یہاں آئے، بچوں اور دوسروں نے کشتی پر تصویریں اور پینٹنگز بنائیں۔ ہم نے اسے پہلے سفید رنگ کیا تھا۔

مہر نیوز: کیا نقاشیاں غیر مہذب تھیں؟

شعیب اردو: نہیں، کوئی بی احترامی نہیں تھی۔ یہ ان کا اظہار محبت تھا۔

مہر نیوز: کشتی کہاں سے روانہ ہوئی، اس وقت کہاں ہے اور کب باضابطہ طور پر غزہ کے لیے روانہ ہوگی؟

شعیب اردو: کشتی اٹلی کے سیسیل جزیرے کے شہر کاتانیا سے روانہ ہوئی۔ پھر سیراکوزا پہنچی جو قریب ہے۔ وہاں آخری تیاریاں مکمل کی گئیں اور مقامی لوگوں کے ایک چھوٹے سے الوداعی پروگرام کے بعد کشتی گالیپولی پہنچی۔ یہاں کچھ دنوں کے لیے رکے گی تاکہ آخری خرابیاں درست کی جا سکیں۔ اس کے بعد براہ راست بغیر کسی رکاوٹ کے غزہ کی طرف جائے گی، ان شاء اللہ۔ اصل میں اس کا سفر گذشتہ سال شروع ہونا تھا مگر موٹر خراب ہوگئی تھی جس کی وجہ سے اٹلی میں رک گئی۔ کشتی مختلف یورپی بندرگاہوں کا دورہ کرچکی ہے۔

مہر نیوز: کشتی پر کون کون موجود ہیں؟

شعیب اردو: کپتان اور عملہ تو ہے ہی، اس کے علاوہ یورپی یونین پارلیمنٹ اور فرانسیسی پارلیمنٹ کے دو ارکان شامل ہیں۔ امریکہ سے جیکب برگر، جو ایک انفلوئنسر ہے، ہمارے ساتھ ہیں۔ امریکہ سے اور بھی چند لوگ، جرمنی سے ہوویدا عراف بھی شامل ہیں۔ انجینئر سرجیو بھی شاید شامل ہوجائیں، لیکن ابھی تصدیق نہیں ہوئی۔ فرانس سے فرینک رومرو بھی شامل ہیں۔ ٹیم تقریبا مکمل ہے مگر آخری تصدیق باقی ہے۔

مہر نیوز: امدادی سامان کیسا ہے؟

شعیب اردو: ہم نے کشتی کے باہر دو بکس رکھے ہیں، لیکن سامان کم ہے۔ زیادہ تر انسانی ہمدردی کا سامان کشتی کے اندر رکھا گیا ہے، جیسے کہ دوائیں اور ہلکے سامان۔ کشتی کے اگلے حصے اور نچلے حصے کا ایک طرف مکمل طور پر امدادی سامان سے بھرا ہوا ہے۔ ہم جہاں بھی جگہ ملتی ہے وہاں امداد رکھ رہے ہیں، جیسا کہ پہلے کرتے آئے ہیں۔

مہر نیوز: آپ کا یہ سفر بہت مشکل ہے، کیا آپ کو خطرہ نہیں ہے کہ آپ پر حملہ ہوسکتا ہے؟ آپ پہلے بھی میڈلین کشتی پر تھے، وہ ضبط ہوگئی، لوگوں کو گرفتار کیا گیا، اور آپ نے مشکل دن دیکھے۔ پھر بھی غزہ کے لیے یہ امدادی کشتیوں کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟

شعیبب اردو: جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آج غزہ میں تاریخ کی سب سے بڑی نسل کشی جاری ہے۔ اگرچہ دنیا کے بڑے میڈیا ادارے اس حقیقت کو چھپانے یا مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن میڈیا کے ذریعے لوگ حالات سے آگاہ ہیں اور کوئی حققیت زیادہ دیر چھپائی نہیں جاسکتی۔ ایسی صورت حال میں ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر خاموش نہیں بیٹھ سکتے۔ شاید کچھ لوگ صرف باتیں کرنا پسند کریں یا نظام کو قصوروار ٹھہرانا بہتر سمجھیں لیکن یہ ہمارے لیے کافی نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مؤثر اور عملی اقدامات کرنا ضروری ہیں۔ ہم یہاں انسانی ضمیر کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم حکومتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ کام کریں۔ افسوس کہ اس کے لیے براہ راست کارروائی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں۔ ہم جو کام کر رہے ہیں، یعنی بحری راستے سے غزہ جانا، مکمل قانونی ہے اور دنیا جانتی ہے کہ یہ لوگ کتنی شدید مدد کے محتاج ہیں۔ اسرائیل کے محاصرے کی وجہ سے بہت سا سامان غزہ میں داخل نہیں ہو پاتا اور خراب ہوجاتا ہے۔ ہمارا مقصد اس راستے کو کھولنا ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہوا تو ہم چاہتے ہیں کہ عوام اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالیں۔ اگر پھر بھی کامیابی نہ ملی، تو ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے ساتھ مل کر محاصرہ توڑنے کی کوشش کریں۔ ہزاروں کشتیوں کی ضرورت نہیں بلکہ دس یا بیس کشتیوں کا ہونا بھی کافی ہے۔

ہم اس کوشش کو جاری رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ ہر انسان کی جان قیمتی ہے۔ وہاں کے نوزائیدہ بچوں کی جان ہمارے دوستوں کی جان سے کم قیمتی نہیں، اور ان کا موازنہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔

اسرائیل نے ہماری کشتی میڈلین پر حملہ کیا، ایک ماہ بعد بحیرہ روم میں ہمیں پانی اور خوراک دی، شاید اس بار ہتھیاروں سے حملہ کریں، شاید دوبارہ بمباری کریں، شاید صرف ڈرامہ کریں۔ ہو سکتا ہے ہم غزہ پہنچ جائیں، لیکن یہ یقینی نہیں۔ ہم خطرات سے بخوبی آگاہ ہیں، مگر کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ ہمارا ضمیر اجازت نہیں دیتا کہ ہم خاموش بیٹھیں۔ ہم تمام خطرات قبول کرتے ہیں اور دنیا کو دکھاچکے ہیں کہ ہم ایک شہری اور فعال تحریک ہیں۔ مجھے لگتا ہے ہم یہ ثابت کرچکے ہیں۔

مہر نیوز: جناب شعیب، ایک اور سوال ہے، آخری سوال؛ دیکھیں، ان امدادی کشتیوں پر صرف مسلمان نہیں ہوتے، زیادہ تر یورپی عیسائی شامل ہیں۔ آپ کے خیال میں اس کا کیا مطلب ہے؟

شعیب اردو: درحقیقت یہ ایک عالمی اتحاد ہے جس میں بہت سے سول سوسائٹی کے ادارے شامل ہیں؛ اس میں اسلامی تنظیمیں بھی ہیں، مسلمان بھی ہیں، غیر مسلم بھی ہیں۔ چونکہ یہ تحریک یورپ سے شروع ہوئی ہے اور عالمی ہے، جتنا زیادہ لوگ اس میں شامل ہوں گے، اتنا ہی بہتر ہوگا۔ ہمارا ارادہ یہ نہیں کہ صرف مسلمان ہوں اور یورپی نہ ہوں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب یہ تحریک یورپ سے شروع ہوتی ہے تو ویزا کا مسئلہ آتا ہے، اور اس وجہ سے مشرق وسطی کے لوگ کم حصہ لے پاتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اسرائیل اس چیز کا غلط فائدہ اٹھاتا ہے؛ یعنی اگر کوئی مسلمان ہو یا مذہبی اصطلاحات استعمال کرے تو فورا اسے دہشت گرد کہہ دیا جاتا ہے۔ آپ سوچیں، کیا ایک یہودی کو آسانی سے دہشت گرد کہا جاسکتا ہے؟ نہیں جبکہ مسلمان اسلامی اصطلاحات استعمال کرتا ہے تو فورا شک ہوتا ہے کہ شاید وہ دہشت گرد ہو۔ بدقسمتی سے یہ حکمت عملی ہمارے خلاف بہت استعمال ہوتی ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ سوچ بدلے گی۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسلاموفوبیا کتنا بڑھ چکا ہے۔ میں خود مسلمان ہوں۔ میڈلین کشتی پر بھی پانچ مسلمان تھے۔

یورپین یا غیر مسلموں کی موجودگی اس کشتیوں میں بہت اہم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غزہ کا مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں ہے، بلکہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔ یہ بالکل درست ہے کہ یہ مسئلہ دین یا نسل کا نہیں، بلکہ انسانیت کا مسئلہ ہے۔ دنیا کو اجازت نہیں دینی چاہیے کہ ایسا ظلم ہو۔ جیسے سو سال پہلے جب یہود کے خلاف ظلم ہوا تو دنیا خاموش نہ رہی اور اس کا مقابلہ کیا، آج بھی فلسطینیوں کے لیے یہی کرنا ہوگا۔

ایک حدیث ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مظلوم سے دین، زبان یا نسل نہ پوچھو، اور ظالم سے بھی نہیں پوچھنا چاہیے کہ وہ کس دین کا ہے۔ ہمیں اس کے خلاف کھڑا ہونا ہے۔ یہاں ہم ضمیر کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔ ہمارے لیے فرق نہیں پڑتا کہ کون کس دین کا ہے، کون کیا عقیدہ رکھتا ہے، یا کس نظریے کا حامل ہے۔ جو بھی غزہ اور فلسطین کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے، ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

مہر نیوز: بہت شکریہ۔ آپ کا سفر خوشگوار ہو۔ ہم آپ کی خبریں سننے کے منتظر رہیں گے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور اس موضوع پر نظر رکھیں گے اور ان شاء اللہ آپ کے ہم صدا بنیں گے۔

شعیب اردو: شکریہ، خدا حافظ۔

News ID 1934394

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha