مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر صہیونی حکومت کے مظالم میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے اور دنیا کے سیاستدان صہیونی ریاست کے مظالم پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ایسے میں یورپی کشتی "میڈلین" انسانی ہمدردی اور شجاعت کی علامت بن کر ابھری ہے۔ یہ کشتی اہلِ غزہ کی مظلومیت کی آواز بن کر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہے۔
ایک کشتی جس پر 12 بین الاقوامی رضاکار اور انسانی حقوق کے کارکن سوار ہیں، غزہ کا محاصرہ توڑنے اور امدادی سامان پہنچانے کے مقصد سے روانہ ہوئی ہے۔ اس مشن میں نمایاں شخصیات شامل ہیں جن میں معروف سویڈش ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ، آئرش اداکار لیام کننگھم، فلسطینی نژاد انسانی حقوق کی کارکن اور یورپی پارلیمان کی رکن ریما حسن، اور فرانس، جرمنی، نیدرلینڈز، اسپین، برازیل اور ترکی کے دیگر سماجی کارکن شامل ہیں۔
کشتی میڈلین جو "فریڈم فلوٹیلا" کا حصہ ہے، عالمی برادری کی خاموشی کے خلاف ایک احتجاجی علامت بن چکی ہے۔ اس مشن کے رضاکار نہ صرف خطرناک سمندری راستوں اور ممکنہ اسرائیلی حملوں کا سامنا کررہے ہیں بلکہ اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر دنیا کو اہل غزہ کی تکلیف کا احساس دلانا چاہتے ہیں۔
فریڈم فوٹیلا کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ میڈلین کشتی خشک دودھ، طبی سامان، اور دیگر امدادی اشیاء لے کر جارہی ہے، اور اس کا راستہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق طے کیا گیا ہے تاکہ وہ یورپی پانیوں سے فلسطینی علاقائی پانیوں میں داخل ہو۔
بیان میں خبردار کیا گیا ہے کہ اس پر کسی بھی قسم کا حملہ یا مداخلت شہریوں کے خلاف ایک دانستہ اور غیر قانونی اقدام تصور کی جائے گی۔ اس سفر کی مدت تقریباً ایک ہفتہ مقرر کی گئی ہے، تاہم ماضی کے تلخ تجربات کی بنیاد پر اسرائیل کی جانب سے اس کشتی کو روکنے یا نشانہ بنانے کا خدشہ موجود ہے۔ الضمیر کشتی اس کی حالیہ مثال ہے جسے 2 مئی کو اسرائیلی ڈرون حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں اس میں آگ لگ گئی اور وہ غزہ نہ پہنچ سکی۔
دنیا کے نام "میڈلین" کے پانچ اہم پیغامات
میڈلین کشتی کا انتظام کرنے والے عالمی برادری کو غزہ میں صہیونی حکومت کے مظالم اور محاصرہ ختم کرنے کے حوالے سے اہم پیغام دینا چاہتے ہیں۔ یہ مہم عالمی رہنماؤں اور حکومتوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی ایک کوشش ہے۔
1. غزہ کے محاصرے پر عالمی ضمیر کی بیداری
ایسے وقت میں جب دنیا فلسطینی عوام کے خلاف غزہ میں روا رکھے جانے والے بے مثال مظالم کی گواہ ہے، عوامی سطح پر ایک نئی بیداری جنم لے رہی ہے۔ کشتی میڈلین، صہیونی حکومت کی مسلسل انسانی حقوق کی پامالی، تشدد اور نسل کشی کے خلاف ایک علامتی احتجاج ہے۔ یہ کشتی اس عالمی فریاد کی نمائندگی کرتی ہے کہ اگرچہ حکومتیں خاموش ہیں لیکن انسانیت اب بھی زندہ ہے اور دوسرے انسانوں کے دکھ درد سے لاتعلق نہیں ہوسکتی۔
2. فریڈم فلوٹیلا کا اخلاقی اور انسانی پیغام
میڈلین اور اس کے ساتھ موجود کارکنان کا پیغام واضح ہے کہ غزہ تنہا نہیں ہے۔ یہ کاروان بغیر کسی عسکری یا سیاسی طاقت کے صرف ہمدردی، شجاعت اور انسان دوستی کے جذبے سے لبریز ہو کر سیاسی و جغرافیائی سرحدوں کو عبور کررہا ہے۔ یہ اقدام ان عالمی منصوبوں کے خلاف ایک گہرا پیغام ہے جن کا مقصد صہیونی جرائم کو معمول کا واقعہ بناکر پیش کرنا ہے۔
3. پُرامن عوامی جدوجہد ہی مزاحمت کی اصل طاقت
بحری کاروان، خاموش ریلیاں، بھوک ہڑتالیں اور بین الاقوامی اداروں کے سامنے مظاہرے یہ سب غاصبانہ قبضے اور محاصرے کے خلاف غیرمسلح مزاحمت کی اقسام ہیں۔ کشتی میڈلین اسی مزاحمتی تسلسل کی ایک اہم کڑی ہے۔ اگرچہ ان سرگرمیوں میں ہتھیار نہیں، مگر ان کی علامتی اور نظریاتی طاقت بے پناہ ہے، خصوصاً سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں یہ اقدامات رائے عامہ پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔
4. سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ میں وسیع بازگشت
سوشل میڈیا پر #BreakTheSiege اور #FreedomFlotilla جیسے ہیش ٹیگز ایک بار پھر عالمی سطح پر ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ ہزاروں صارفین نے کشتی میڈلین کی تصاویر اور پیغامات کو شیئر کر کے فلسطینی عوام سے اپنی یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ متعدد صحافی، دانشور اور فنکار اس اقدام کو آج کی دنیا کی سب سے جراتمند عوامی مہم قرار دے رہے ہیں۔ سائبر اسپیس پر یہ یکجہتی اس حقیقت کی نشانی ہے کہ جھوٹ اور سنسرشپ سے بھرپور دنیا میں سچائی اب بھی اپنا راستہ بناسکتی ہے۔
5. سیاسی خاموشی کے مقابل علامتی طاقت
جب کئی حکومتیں جیو پولیٹیکل مفادات یا اقتصادی دباؤ کے باعث صہیونی جرائم پر واضح موقف اپنانے سے گریز کر رہی ہیں، ایسے میں میڈلین جیسے علامتی اقدامات عالمی ضمیر کے ترازو میں بھاری وزن رکھتے ہیں۔ یہ کشتی ایک ایسی آواز ہے جو خاموشی کو توڑنے کی کوشش کررہی ہے۔ اگرچہ یہ آواز سمندر سے ابھرتی ہے، مگر اس کی بازگشت عالمی دارالحکومتوں اور آزاد میڈیا میں سنی جا رہی ہے۔ یہ وہ انسانی صدا ہے جسے آج پہلے سے بڑھ کر سننے اور پھیلانے کی ضرورت ہے۔
کشتی میڈلین کی روانگی صرف ایک انسانی ہمدردی پر مبنی کوشش یا محاصرہ توڑنے کی مہم نہیں ہے، بلکہ یہ ظلم اور ناانصافی کے خلاف عالمی عزم و ارادے کی علامت بن چکی ہے۔ ایسے وقت میں جب دنیا کے کئی ممالک فلسطینی عوام کے خلاف کھلی جارحیت پر یا تو خاموش ہیں یا محتاط اور مصلحت پسندانہ موقف اپنائے ہوئے ہیں، یہ عوامی اقدام رسمی سیاست سے کہیں زیادہ مؤثر ثابت ہو رہا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ جغرافیائی سرحدیں انسانی یکجہتی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔
میڈیا اور ذہنی اثرات کی سطح پر بھی اس تحریک کی گونج محض اس کے زمینی دائرہ کار سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ روایتی اور سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں اس کا بھرپور چرچا ہو رہا ہے اور اس نے ایک بار پھر مسئلہ غزہ کو عالمی توجہ کا مرکز بنادیا ہے۔ میڈیا میں اس کو حاصل کوریج اسرائیلی جرائم کو معمول کا واقعہ بناکر پیش کرنے کے پروجیکٹ کو چیلنج دینے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔
جب سے صہیونی حکومت نے غزہ پر وحشیانہ حملے شروع کیے ہیں، تباہی اور درندگی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ دنیا اسے اعلانیہ نسل کشی قرار دے رہی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور رپورٹس بتاتی ہیں کہ ہزاروں بچوں اور عورتوں کو شہید کیا جا چکا ہے، رہائشی علاقوں کو ملبے میں بدل دیا گیا ہے اور اسپتالوں و ایمبولینسوں کو بارہا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے تاکہ غزہ کی شہری زندگی اور اجتماعی مزاحمت کو جڑ سے ختم کیا جاسکے۔
دوسری طرف بنیامین نیتن یاہو اور ان کے حامی ذرائع ابلاغ مغربی طاقتوں کی غیر مشروط حمایت سے فائدہ اٹھا کر اس قتل عام کو دفاعی اقدام کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسخ شدہ اصطلاحات، گمراہ کن بیانیے اور منتخب ویڈیوز کے ذریعے ایک جھوٹی تصویر دنیا کے سامنے رکھی جا رہی ہے جہاں شہید بچوں کو ثانوی نقصان اور متاثرہ فلسطینیوں کو سیکورٹی خطرہ قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم آزاد صحافیوں کی رپورٹنگ، عینی شاہدین کی گواہیاں اور وہ تصاویر و ویڈیوز جو دنیا کے سامنے آچکی ہیں، اس مکروہ منصوبے کو کامیاب ہونے سے روک رہی ہیں۔ آج دنیا کی ایک بڑی تعداد ان حقائق سے آگاہ ہوچکی ہے اور یہی آگاہی میڈلین کی روانگی جیسے اقدامات کی طاقت بنتی جارہی ہے۔ انسان جب حقیقت سے روبرو ہوتا ہے، تو جلد یا بدیر ردِ عمل ضرور ظاہر کرتا ہے۔
یہی علامتی اقدام مستقبل میں دنیا بھر میں اسی نوع کے نئے عوامی اقدامات کے لیے مشعل راہ بن سکتا ہے۔ وہ کارکنان جو شاید سیاسی وسائل نہ رکھتے ہوں، میڈلین کو ایک نمونے کے طور پر اپنا کر شعور بیداری کی مہم، بائیکاٹ مہم، انسانی حقوق کے بین الاقوامی کاروانوں کا اہتمام کرسکتے ہیں۔
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ میڈلین ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ عوامی تحریکیں، چاہے محدود دائرے کے اندر ہی کیوں نہ ہوں، طاقتور بیانیے کو چیلنج کرنے کی طاقت رکھتی ہیں۔ یہ ایک ایسا ماڈل ہے جو مزاحمت کو اخلاقیات، انسانیت اور عوامی طاقت کی بنیاد پر از سر نو متعارف کرواتا ہے۔ یہ ایک ایسا ماڈل ہے جو ہر آزاد منش معاشرہ اپنی ثقافت اور حالات کے مطابق اپناسکتا ہے۔
سخن آخر
اگرچہ یہ ممکن ہے کہ یہ کشتی غزہ تک نہ پہنچ پائے یا راہ میں رکاوٹوں کا سامنا کرے، لیکن اس کا پیغام امید اور مزاحمت کا پیغام ہے جو سواحل تک پہنچنے سے پہلے ہی دنیا کے کروڑوں انسانوں کے دلوں میں جگہ بنا چکا ہے۔ یہی وہ ننھا پودا ہے جو مستقبل کی عوامی جدوجہدوں میں میں تناور درخت بن جائے گا۔
آپ کا تبصرہ