22 جولائی، 2025، 8:18 AM

مہر نيوز کی خصوصی رپورٹ؛

غزہ محاصرے میں؛ خوراک بند، انسانیت شرمندہ

غزہ محاصرے میں؛ خوراک بند، انسانیت شرمندہ

غاصب اسرائیل کی جانب سے غزہ میں جاری محاصرہ صرف بمباری تک محدود نہیں، اب بھوک، قحط اور پانی کی شدید قلت نے انسانی بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ غاصب اسرائیلی افواج نے غزہ میں خوراک کی ترسیل روک رکھی ہے اور کھانے پینے کے مراکز پر بھی حملے کیے جا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں سینکڑوں شہری، جن میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے، بھوک سے شہید ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی کے باعث، غزہ کے مظلوم عوام دہائی دے رہے ہیں کہ نسل کشی صرف بمباری سے نہیں ہوتی، بلکہ خوراک اور پانی کی بندش بھی ایک سنگین جرم ہے۔

بچوں کی زبان پر طعمِ غذا نہیں، موت کا ذائقہ ہے

عالمی میڈیا کے مطابق، اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلط کیے گئے محاصرے کے نتیجے میں روزانہ تین میں سے ایک فرد کو کھانے کو کچھ نہیں ملتا، جبکہ 90 فیصد آبادی خوراک کی شدید قلت کا سامنا کر رہی ہے۔

یونیسف کے مطابق، 470000 سے زائد افراد بھوک کی انتہائی شدید حالت میں ہیں اور زندگی بچانے کے لیے فوری امداد کے منتظر ہیں۔

الجزیرہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 71 ہزار افراد ایسے ہیں جنہیں فوری غذا اور طبی امداد نہ ملی تو ان کی جان کو شدید خطرہ ہے۔

’’میں اللہ کے پاس جا رہا ہوں، سب کچھ بتانے‘‘ یہ الفاظ ایک جنگ زدہ یمنی بچے نے شہادت سے پہلے کہے تھے، جو اب غزہ کے ہزاروں بچوں کی صدا بن چکے ہیں۔

یہ وہ بچے ہیں جو قحط، بمباری اور عالمی خاموشی کے درمیان صرف زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

ایسے میں بہت سے لوگ معینی کرمانشاہی کی نظم یاد کرتے ہیں: ’’عجب صبر ہے خدا کا‘‘۔

اسرائیل کے ہاتھوں خوراک بھی ہتھیار بن گئی

انسانی حقوق کے ادارے کے مطابق قابض اسرائیلی فوج نے جان بوجھ کر خوراک کے مراکز کو نشانہ بنایا۔

یہ مراکز جہاں شہری خوراک کے لیے پہنچتے ہیں وہاں ان پر حملے کر کے انہیں شہید کیا جاتا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق، بھوک سے 900 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں وہ افراد شامل نہیں جو کھانے کی تلاش میں مارے گئے۔

غزہ محاصرے میں—خوراک بند، انسانیت شرمندہ

کشتی "حنظلہ" محصور غزہ کا محاصرہ توڑنے کے مشن پر روانہ

ایک ایسے وقت میں جب غزہ مسلسل 18 سالہ اسرائیلی محاصرے کی لپیٹ میں ہے، انسانی ہمدردی کی علامت سمجھی جانے والی کشتی "حنظلہ" یورپی ملک اٹلی سے فلسطین کی جانب روانہ ہو گئی ہے، جس کا مقصد محاصرے کو چیلنج کرنا اور عالمی برادری کو خواب غفلت سے جگانا ہے۔

یہ کشتی معروف فلسطینی مزاحمتی علامت "حنظلہ" کے نام سے منسوب کی گئی ہے۔ حنظلہ وہ 10 سالہ بچہ ہے جو فلسطینی کارٹونسٹ شہید ناجی العلی کے قلم سے تخلیق ہوا، جس کی پشت ہمیشہ دنیا کی جانب رہتی ہے۔ کارٹونسٹ کا کہنا تھا کہ حنظلہ اس وقت تک چہرہ نہیں دکھائے گا اور نہ ہی مسکرائے گا جب تک فلسطین آزاد نہ ہو جائے۔

اب یہی کردار مزاحمت کی علامت بن چکا ہے، اور اس کے نام پر نکلی کشتی بھی دنیا کی بے حسی اور اقوام متحدہ کی خاموشی کے خلاف علامتی احتجاج ہے۔

کشتی میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن اور امدادی سامان سوار ہیں۔ اس مشن کا اہتمام "ائتلاف ناوگان آزادی" (Freedom Flotilla Coalition) نے کیا ہے، جس کے مطابق یہ امدادی مشن اسرائیلی ناکہ بندی کے خلاف ایک پرامن مگر جرات مندانہ اقدام ہے۔

واضح رہے کہ ایک ماہ قبل بھی اسی نوعیت کی ایک اور کشتی "Madeleine" غزہ کے لیے روانہ کی گئی تھی، جسے صہیونی فورسز نے راستے میں روک کر توقیف کر لیا اور اس پر سوار افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا کشتی "حنظلہ" غزہ کے ساحل پر سکون سے لنگر انداز ہو پائے گی؟ یا اسے بھی مادلین کی طرح اسرائیلی جارحیت کا سامنا کرنا پڑے گا؟

بھوک کا عذاب... مصنوعی ذہانت کی زبان میں

650 دن گزر گئے... لیکن غزہ میں جنگ ختم نہ ہوئی، نہ بھوک کا بحران۔ ایسے میں ایک سوال ذہنوں میں ابھرا: جب انسان مسلسل بھوکا اور پیاسا ہو، تو جسم پر کیا بیتتی ہے؟

ہم نے یہی سوال مصنوعی ذہانت (AI) سے کیا، اور اس کا جواب چونکا دینے والا تھا۔

AI کے مطابق:

اگر جسم کو چند دن تک خوراک اور پانی نہ ملے، تو سب سے پہلے خون گاڑھا ہونے لگتا ہے اور دل کو خون پمپ کرنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ پانی کی شدید کمی سے گردے فیل ہو جاتے ہیں، جس کے باعث زہریلے مادے جسم میں جمع ہونے لگتے ہیں۔ دماغ میں خشکی پیدا ہوتی ہے، جو چکر، توہم، بے ہوشی اور آخرکار موت کا سبب بنتی ہے۔

مصنوعی ذہانت مزید بتاتی ہے کہ چھوٹے بچے، اگرچہ کچھ دن صرف پانی کے سہارے زندہ رہ سکتے ہیں، مگر جلد ہی کمزوری، شوگر کی سطح میں خطرناک کمی، توجہ کی کمی اور بعض اوقات دماغی نقصانات کا شکار ہو جاتے ہیں اور اگر پانی بھی نہ ہو، تو ان کے زندہ رہنے کی مدت ایک سے تین دن سے زیادہ نہیں ہوتی، وہ بھی صحت اور موسم پر منحصر ہے۔

غزہ محاصرے میں—خوراک بند، انسانیت شرمندہ

دنیا انسانیت کی بھوکی، غزہ خوراک کی!

غاصب صیہونی حکومت کے مظالم پر ایک بار پھر دنیا بھر کے صارفین نے شدید ردعمل دیا ہے۔ غزہ میں جاری قحط اور محاصرے پر عالمی سطح پر سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ #غزه_تموت_جوعا (غزہ بھوک سے مر رہی ہے) ٹرینڈ کرنے لگا، جس کے ذریعے لاکھوں افراد نے اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز بلند کی۔

غزہ سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی ناحد حجاج نے اس المناک صورتحال کو بیان کرتے ہوئے لکھا: حیران نہ ہوں اگر ہم صحافی اب یہاں سے خبریں دینا بند کر دیں، خدا کی قسم! آج بھوک کی شدت سے میں بستر سے نہیں اٹھ سکا۔ یہاں کچھ بھی کھانے کو نہیں ہے۔ چاہے کسی کے پاس پیسے ہوں، بازار میں کوئی چیز ہی دستیاب نہیں۔

دوسری جانب، ہالی ووڈ کے معروف اداکار خاویر باردم نے بھی اسرائیلی جارحیت پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل قتل کرتا ہے، امریکا مالی معاونت کرتا ہے، یورپ حمایت کرتا ہے۔ اب صرف ہم عام لوگ باقی بچے ہیں، جنہیں اس نسل کشی کے خلاف آواز بلند کرنی ہے۔ خاموش مت رہو! اگر تم خاموش رہے تو شریک جرم بنو گے۔

غزہ میں 650 سے زائد دنوں سے جاری محاصرہ اب مکمل انسانی بحران میں تبدیل ہو چکا ہے، جہاں بچے بھوک سے بلک رہے ہیں اور دنیا صرف تماشائی بنی ہوئی ہے۔

News ID 1934424

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha