7 جولائی، 2025، 8:19 PM

رہبر معظم کے فتویٰ کے مطابق، ہم ایٹمی ہتھیاروں کے پیچھے نہیں ہیں، ایرانی صدر

رہبر معظم کے فتویٰ کے مطابق، ہم ایٹمی ہتھیاروں کے پیچھے نہیں ہیں، ایرانی صدر

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے معروف امریکی صحافی ٹاکر کارلسن کو دیے گئے ایک تفصیلی انٹرویو میں ایران کی ایٹمی پالیسی، امریکہ کے ساتھ مذاکرات، اسرائیلی جارحیت، اور بین الاقوامی اداروں کے کردار پر کھل کر اظہار خیال کیا۔

مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے معروف امریکی صحافی ٹاکر کارلسن کو دیے گئے ایک تفصیلی انٹرویو میں ایران کی ایٹمی پالیسی، امریکہ کے ساتھ مذاکرات، اسرائیلی جارحیت، اور بین الاقوامی اداروں کے کردار پر کھل کر اظہارِ خیال کیا۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ ایران کے رہبر معظم آیت‌الله العظمیٰ خامنہ‌ای کے فتویٰ کے مطابق ایٹمی ہتھیار بنانا حرام ہے اور ہمیشہ مذاکرات اور عالمی قوانین کی بنیاد پر امن کا خواہاں رہا ہے۔

انٹرویو کا متن درج ذیل ہے:

ٹاکر کارلسن: جناب صدر، ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں کمی کی کچھ علامات نظر آ رہی ہیں۔ آپ کی رائے میں یہ صورتحال کس طرف جا رہی ہے؟

صدر پزشکیان: ہم نے کبھی جنگ کا آغاز نہیں کیا۔ میرے لیے سب سے اہم بات داخلی اتحاد اور دنیا کے ساتھ پرامن روابط کا قیام ہے۔

ٹاکر کارلسن: آپ بھی صلح کی بات کرتے ہیں اور لیکن امریکی صدر کا بھی کہنا ہے کہ جب تک ایران اپنے ایٹمی پروگرام سے پیچھے نہیں ہٹتا پائیدار صلح ممکن نہیں ہے تو کیا آپ اس پر بات چیت کے لیے تیار ہیں؟

ڈاکٹر پزشکیان: نیتن یاہو 1992 سے دعویٰ کر رہا ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانا چاہتا ہے، اور یہی بات اس نے امریکہ کے مختلف صدور کے ذہنوں میں ڈالا ہے۔ حالانکہ ہم نے کبھی ایسا ارادہ نہیں رکھا۔ کیونکہ رہبر معظم کا فتویٰ واضح ہے: ایٹمی ہتھیار بنانا حرام ہے۔ ہم نے IAEA کے ساتھ بھرپور تعاون کیا، لیکن کچھ ممالک نے اس عمل کو خراب کیا۔

ٹاکر کارلسن: اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران نے IAEA کے ساتھ تعاون بند کر دیا ہے؟ ایسے میں ایران کے ایٹمی پروگرام کی نگرانی کیسے ہوگی؟

پزشکیان: ہم مذاکرات کی میز پر تھے، لیکن اسرائیل نے عین اسی وقت ہمارے مراکز پر حملے کیے جب ہم بات چیت کر رہے تھے۔ ہم اب بھی نگرانی کے لیے تیار ہیں، لیکن تباہ شدہ مراکز کی بحالی کے بعد۔

ٹاکر کارلسن: بعض رپورٹس کے مطابق ایران سمجھتا ہے کہ IAEA اسرائیل کے لیے جاسوسی کرتا ہے۔ کیا یہ درست ہے؟

پزشکیان: جب IAEA کے دیے گئے ڈیٹا کی بنیاد پر اسرائیل نے حملے کیے اور ایجنسی نے مذمت تک نہ کی، تو یہ شک اور بداعتمادی پیدا ہونا لازمی تھا۔

ٹاکر کارلسن: کیا آپ نئے مذاکرات کی شروعات کے لیے تیار ہیں؟

ڈاکٹت پزشکیان: جی، ہم تیار ہیں، بشرطیکہ گفتگو عالمی قوانین اور احترام پر مبنی ہو۔ ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے: ہمارا حق ہمیں حاصل ہو، جیسا ہر قوم کو حاصل ہے۔

ٹاکر کارلسن: کیا اسرائیل نے آپ کو قتل کرنے کی کوشش کی؟

صدر پزشکیان: جی ہاں۔ ہم پر حملہ ہوا اور قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایک اجلاس کے مقام پر بمباری کی گئی جو اسرائیلی جاسوسی کے ذریعے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر تھی۔ اگر خدا نہ چاہے، تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔

کارلسن: کیا امریکہ بھی اس میں ملوث تھا؟

پزشکیان: یہ حملہ اسرائیل کا تھا، امریکہ کا نہیں۔ ہم کسی سے ڈرتے نہیں۔ یہ قوم سختیوں میں مضبوط ہوئی ہے۔

ٹاکر کارلسن: کچھ امریکی ایران سے خوفزدہ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایران ایٹمی حملہ کر سکتا ہے۔ "مرگ بر امریکہ" جیسے نعرے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ تو کیا امریکیوں کو ایران ڈرنے کا حق نہیں ہے؟

صدر پزشکیان: ایران نے دو صدیوں سے کسی پر حملہ نہیں کیا۔ "مرگ بر امریکہ" کا مطلب ہرگز مرگ بر امریکی عوام نہیں ہے۔ بلکہ "مرگ بر ظلم" ہے۔ ہم انسانیت کے دشمن نہیں، ظلم کے دشمن ہیں۔

ٹاکر کارلسن: کچھ علما نے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف فتویٰ دیا ہے۔ اس کی حقیقت کیا ہے؟

ڈاکٹر پزشکیان: میرے علم میں کسی مخصوص شخص کے خلاف فتویٰ نہیں ہے۔ صرف توہینِ مذہب کی مذمت کی گئی ہے۔ یہ فتویٰ نہ قتل کا حکم ہے، نہ دھمکی۔

کارلسن: کچھ کا کہنا ہے کہ امریکہ میں ایرانی "سلیپر سیلز" موجود ہیں جو احکامات کے منتظر ہیں۔

پزشکیان: یہ صرف افواہیں اور پروپیگنڈا ہیں۔ ایران نے کبھی امریکی سرزمین پر حملہ نہیں کیا۔ ایرانی عوام امن پسند ہیں، ان پر الزام لگانا انصاف نہیں۔

ٹاکر: انقلاب کے اوائل میں ایران اور اسرائیل کے کچھ معاشی تعلقات تھے، حتیٰ کہ بعض ہتھیاروں کی ترسیل کا بھی دعویٰ ہے۔ یہ تعلقات کیسے ٹوٹے؟

صدر پزشکیان: اسرائیل کی نسل کشی اور ظلم سب کے سامنے ہے۔ ہم نے کبھی اسرائیل سے اسلحہ نہیں لیا اور نہ کسی جنگ کی ابتدا کی۔ جنگیں ہم پر مسلط ہوئیں، جیسے عراق جنگ اور حالیہ اسرائیلی حملے۔ اب وہ امریکہ کو بھی اس میں گھسیٹنا چاہتے ہیں۔

ٹاکر کارلسن: اگر ایران پر بڑی جنگ مسلط ہوئی تو کیا چین و روس حمایت کریں گے؟

صدر: ہمارا اصل سہارا خدا ہے۔ ہم دفاع کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم ایٹمی ہتھیار نہیں چاہتے، مگر اگر جنگ ہوئی تو پورے خطے کو لپیٹ میں لے گی۔ فیصلہ امریکی صدر کے ہاتھ میں ہے، چاہے تو نتن یاہو کو روکے۔

ٹاکر کارلسن: آپ کا شکریہ

صدر: میں بھی شکر گزار ہوں۔ امید ہے امن قائم ہو۔

News ID 1934162

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha