مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، آج اتوار کی سہ پہر ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں مسعود پزشکیان نے اسلامی جمہوریہ ایران کی پرامن ایٹمی تنصیبات پر حملے میں امریکی حکومت کے جارحانہ اقدام کی شدید مذمت کی اور تاکید کی کہ آج دنیا جس چیز کا مشاہدہ کر رہی ہے وہ ایک تشویشناک اور ناقابل قبول رجحان ہے جس میں ایک ایسا ملک جو بین الاقوامی ضابطوں اور تقاضوں کے دائرے میں اپنی پرامن ایٹمی سرگرمیوں کو آگے بڑھاتا ہے، خاص طور پر بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی نگرانی میں، وہ ملک امریکہ اور صیہونی حکومت کے براہ راست اور کھلے حملے کا نشانہ بنتا ہے۔ ان کا یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ امن، جمہوریت، انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کے بارے میں ان کے تمام دعوے زبانی جمع خرچ اور رائے عامہ کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں۔
ایرانی صدر نے صہیونی حکومت کے مجرمانہ اقدامات کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس حکومت کے ہاتھوں غزہ، لبنان، شام اور اب ایران میں جو کچھ دیکھا گیا ہے وہ انسانوں، عورتوں، بچوں اور عام شہریوں کے بے رحمانہ قتل کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جب کہ مغربی میڈیا میں، انتہائی بے شرمی کے ساتھ، وہ ان کارروائیوں کو "اپنے دفاع" کے طور پر متعارف کراتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ امن کے خواہاں ہیں۔ کیا ایسا دعویٰ واقعی قابل قبول ہے؟
پزشکیان نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف صیہونی حکومت کی حالیہ جارحیت امریکہ اور بعض یورپی حکومتوں کی اجازت اور کھلی حمایت سے کی گئی ہے، کہا کہ ان کا خیال تھا کہ اس مجرمانہ اقدام سے وہ ایران کو اپنے جائز اور قانونی حقوق کے حصول سے روک سکتے ہیں۔ لیکن یہ عمل جنگل کے قانون کی منطق کے سوا کچھ نہیں۔ ایک ایسی منطق جسے اسلامی جمہوریہ ایران کبھی بھی قبول نہیں کرے گا، اور ہم اپنے لئے قوم اور ملک کی ارضی سالمیت کے دفاع کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
ہمارے ملک کے صدر نے امریکہ اور صیہونی حکومت کے اس دیرینہ دعوے کو کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ایک "بڑا اور تاریخی جھوٹ" قرار دیا اور کہا کہ سپریم لیڈر کے واضح فتوے کے مطابق ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال اسلامی شریعت اور اخلاقیات کی رو سے ممنوع ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے دفاعی نظریے میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے اور عالمی میدان میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جو پروپیگنڈہ کیا گیا ہے وہ سراسر جھوٹ ہے۔
پزشکیان نے ایٹمی ایشو پر بین الاقوامی اداروں کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے بہترین تعاون کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے کبھی بھی بین الاقوامی ضابطوں کے دائرے سے باہر کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔ دوسری جانب ایران میں نئی حکومت کے پہلے دن سے ہی ہماری تمام تر کوششیں امن، استحکام اور علاقائی ممالک کے ساتھ تعاون کو مضبوط بنانے پر مرکوز ہیں۔ تاہم اس عرصے کے دوران صیہونی حکومت نے بارہا دہشت گردانہ کارروائیوں اور بدامنی پھیلا کر علاقائی سالمیت کو چیلینج کیا ہے۔
صدر مملکت نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ خطے میں عدم تحفظ امریکہ اور صیہونی حکومت کی سازشوں کا براہ راست نتیجہ ہے، مزید کہا کہ صیہونی حکومت کے خلاف اسلامی جمہوریہ ایران کا اقدام ہماری سرزمین پر غاصب اور ناجائز حکومت کی جارحیت کے مقابلے میں ایک جائز دفاع ہے، ہم نے خطے میں کسی بھی جنگ کا آغاز نہیں کیا اور خطے میں پائیدار امن کے خواہاں ہیں۔ لیکن ہمارے دشمن کے جارحانہ اور لاپرواہی پر مبنی اقدامات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بین الاقوامی قوانین میں اقوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی موثر اقدامات کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ اسی لیے ایران ان جارحیتوں کا فیصلہ کن، سخت اور پچھتانے والے جواب ضرور دے گا۔
پزشکیان نے تاکید کی کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام اقدامات بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کے دائرہ کار میں ہیں اور ہم صرف اپنے ناقابل تردید حقوق کے استعمال کا مطالبہ کرتے ہیں۔ امریکہ اور صیہونی حکومت کو اس فریم ورک سے باہر اپنے مطالبات دیگر اقوام پر مسلط کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ انہیں دنیا میں دھونس، دھمکی، جنگ افروزی اور عدم استحکام کی پالیسی کو چھوڑنا ہوگا۔
ایرانی صدر نے مزید کہا کہ کسی ملک کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنا، حتی کہ جنگ کے وقت میں بھی، بین الاقوامی قانون کے نقطہ نظر سے ایک غیر قانونی اور قابل مذمت عمل ہے۔ جبکہ یہ حملہ اس وقت ہوا جب ہم نہ صرف جنگ میں نہیں تھے، بلکہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات بھی کر رہے تھے۔ یہ طرز عمل واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ ان کے مذاکرات اور امن کے دعوے کتنے بے بنیاد ہیں۔
اس ٹیلی فونک گفتگو میں ڈاکٹر پزشکیان نے ہندوستان کے ساتھ اقتصادی، سیاسی اور اسٹریٹجک تعلقات کو مضبوط کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ہم دوطرفہ تعاون کو بڑھانے پر زور دیتے ہیں، خاص طور پر برکس گروپ سمیت بین الاقوامی اداروں کے فریم ورک کے اندر، تعاون بڑھانے کے خواہاں ہیں اور ہم تعلقات اور مشترکہ تعاون کی سطح کو بڑھانا چاہتے ہیں۔
صدر نے علاقائی ممالک کے ساتھ تعاون کو بڑھانے پر بھی زور دیا، خاص طور پر تجربات کے تبادلے اور اقتصادی، سائنسی، صنعتی اور تکنیکی رابطوں کے ذریعے، اور اسے علاقائی تعلقات کو مضبوط بنانے میں ایک اہم عنصر قرار دیا۔
اس ٹیلیفونک بات چیت میں ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی موجودہ حالات پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور تنازعات کے فوری خاتمے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی تنازعے اور اختلاف کو صرف اور صرف بات چیت اور سفارتی حل کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔
ہندوستانی وزیر اعظم نے اجتماعی مفادات کے حصول میں امن، استحکام اور سلامتی کے کردار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم تنازعات کو روکنے کے لیے اپنے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ دوطرفہ اور علاقائی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ ہندوستان ہمیشہ ایرانی قوم کا دوست رہا ہے اور رہے گا۔
آپ کا تبصرہ