مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور سیکرٹری جنرل کو خط لکھ کر امریکہ کی جانب سے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کی غلط تشریح پر شدید اعتراض کیا ہے۔
ایران کے مستقل نمائندے، امیر سعید ایروانی نے امریکی حملوں کو پرامن جوہری تنصیبات کے خلاف غیر قانونی طاقت کا استعمال قرار دیا اور کہا کہ ان حملوں کو کسی صورت دفاع کے حق کے تحت جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اس شق کی من مانی تشریح بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اصولوں، خاص طور پر طاقت کے استعمال پر پابندی کو سخت نقصان پہنچا سکتی ہے۔
ایروانی نے یہ بھی واضح کیا کہ ایران کی جوہری تنصیبات عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کی نگرانی میں ہیں اور ان کا پرامن ہونا کئی بار تصدیق شدہ ہے۔
ایران نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی توجہ اہم قانونی نکات کی جانب مبذول کرائی ہے:
ایران کا مؤقف ہے کہ امریکہ کی جانب سے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کی تشریح نہ صرف قانونی طور پر بے بنیاد ہے بلکہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے منشور کی صریح تحریف ہے۔ ایران کی پرامن جوہری تنصیبات، جو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی مکمل نگرانی میں ہیں اور جن کی پرامن نوعیت بارہا تصدیق کی گئی ہے، کسی بھی صورت میں دفاع کے حق کے تحت حملے کا جواز نہیں بن سکتیں۔
ایران نے خبردار کیا کہ اگر اس غیرقانونی دعوے کو معمول بنایا گیا تو اقوام متحدہ کے منشور کا ایک بنیادی اصول یعنی طاقت کے استعمال کی ممانعت شدید طور پر کمزور ہو جائے گا۔ جنرل اسمبلی کی قرارداد 3314 کے مطابق، کسی بھی پیشگی حملے کو، جب تک کسی پر حقیقی حملہ نہ ہو، جارحیت کا واضح مصداق سمجھا جاتا ہے۔
ایران نے بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دفاع کا حق صرف اسی وقت قابل قبول ہے جب کسی پر حقیقی معنوں میں حملہ ہوچکا ہو، اور اس کے جواب میں کارروائی صرف اسی صورت میں جائز ہے جب ضرورت اور تناسب کے اصولوں کا مکمل طور پر خیال رکھا جائے۔
ایران نے امریکہ اور اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف بے بنیاد جوہری خطرے کے دعوے کو جواز بنا کر اپنی جارحانہ کارروائیوں کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ دعوی نہ تو قانونی طور پر قابل قبول ہے اور نہ ہی اس کے کوئی حقیقی شواہد موجود ہیں۔
ایرانی نمائندے نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی تازہ ترین رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں نہ صرف ایران کے جانب سے کسی قسم کی خلاف ورزی کا ذکر نہیں ہے بلکہ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام میں کسی قسم کی فوجی نیت یا ہتھیار سازی کی سرگرمی کے شواہد موجود نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ امریکی انٹیلیجنس ادارے بھی اس حقیقت کا اعتراف کرچکے ہیں۔
ایرانی نمائندے نے اپنے مؤقف پر زور دیتے ہوئے کہا کہ قریب الوقوع خطرے کا حوالہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت قانونی حیثیت سے محروم ہے۔ علاوہ ازیں، ایران نے سلامتی کونسل کی 1981 کی قرارداد 487 کا بھی حوالہ دیا، جس میں واضح طور پر جوہری تنصیبات پر حملے کو اقوام متحدہ کے منشور کی خلاف ورزی قرار دیا گیا تھا۔
آپ کا تبصرہ