مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: تکفیری دہشت گرد جماعت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے ملک میں چار سالہ سیاسی روڈمیپ اور رسمی انتخابات کے بہانے مختلف گروہوں اور دھاروں کی شمولیت کے راستے مسدود کردیے ہیں۔ اس حکمت عملی کے ذریعے جولانی گروپ مکمل طور پر اقتدار کے تمام ستونوں پر قابض ہوسکتا ہے۔ سال 2025 شام کے عوام کے لیے سخت حالات میں شروع ہوا ہے۔ دمشق، حلب، اور دیگر شہروں میں سال کے آغاز کی کوئی خوشی یا سرگرمی نظر نہیں آئی۔ اگرچہ حالیہ دنوں میں ملک میں عارضی استحکام دیکھا جا رہا ہے لیکن شام کے مستقبل، اس کے سیاسی نظام اور حکومتی ڈھانچے کے بارے میں صورتحال واضح نہیں ہے۔ موجودہ حالات اور اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ ملک کے تمام اہم عہدے پر قبضہ کرنے والے افراد پہلے ادلب میں مسلح شدت پسند تھے۔ آج وہی افراد سوٹ اور ٹائی میں سیاسی شخصیات کے طور پر سامنے آرہے ہیں۔ مغربی میڈیا نے حالیہ دنوں میں جولانی، المعروف احمد الشرع کو شام کا ڈی فیکٹو لیڈر قرار دیا ہے۔
ڈیفیکٹو لیڈر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی سیاسی اور انتخابی عمل کے ذریعے نہیں بلکہ ہنگامی حالات کے تحت اقتدار پر قابض ہو۔ یہ قیادت غیر رسمی ہوتی ہے اس کو عوام نے منتخب نہیں کیا ہے اس کے باوجود عملی طور پر وہ اقتدار کے تمام اختیارات کا مالک ہے۔ مغربی میڈیا نے شام میں جولانی کی موجودہ حیثیت کو بیان کرنے کے لیے اسی اصطلاح کا استعمال کیا ہے۔ یہ مغربی میڈیا کے اس رویے کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ شام کے موجودہ حکومتی سربراہ کی باتوں اور پالیسیوں کو معتبر، رسمی، یا قابلِ اعتماد تصور نہیں کرتے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے ماضی میں تیونس، مصر، لیبیا، یمن اور سوڈان کے واقعات کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے نشاندہی کی ہے کہ اگر اقتدار غیر فوجی یا غیر مسلح قیادت کو منتقل نہ کیا جائے تو اس کے نتائج نہایت حساس اور فیصلہ کن ہوسکتے ہیں۔ یہ صورتحال مستقبل میں مزید واقعات کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے چونکہ الجولانی نے سابقہ حکومت کے باقیات کے بارے میں اپنی پالیسی کا اظہار نہیں کیا ہے۔ بشار الاسد حکومت کے باقیات کے بارے میں سخت موقف اختیار کیا جائے گا یا مفاہمت کی جائے گی؛ اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
امریکہ اور الجولانی کے تعلقات
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق نومنتخب صدر ٹرمپ نے ابھی تک شام کے بارے میں اپنی پالیسی کا باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے تاہم جولانی نے بارہا امید ظاہر کی ہے کہ صدر ٹرمپ شام پر عائد پابندیوں کو ختم کریں گے۔ اگرچہ امریکی سفارتکاروں نے دمشق کا دورہ کیا اور جولانی کے پکڑے جانے پر 10 ملین ڈالر کا انعام واپس لے لیا گیا ہے تاہم امریکی وزارت خارجہ کے ماہرین کے مطابق الجولانی کے بارے میں کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے بیانات پر باقی رہیں گے یا یوٹرن لیں گے؟
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق جولانی شام میں انتخابات کے انعقاد کے لیے کسی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ شام میں انتخابات کا عمل پورا ہونے میں چار سال لگ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ نئے آئین کی تیاری کے لیے تین سال کا وقت بھی تخمینہ لگایا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ان دو متعین وقتوں کے بارے میں بھی کوئی گارنٹی نہیں دی گئی۔ یوں عملی طور پر یہ عمل اس سے زیادہ وقت لے سکتا ہے۔ الجولانی نے بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد کہا تھا کہ شام میں انتخابات اور آئینی اصلاحات کے عمل میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ ایک حالیہ انٹرویو میں الجولانی نے کہا کہ شام میں انتخابات کے انعقاد اور نئے آئین تیار کرنے کا عمل ممکنہ طور پر پانچ سال میں مکمل ہوسکتا ہے۔ یہ غیر یقینی سیاسی صورت حال شام کے مستقبل کے بارے میں مزید سوالات پیدا کرتی ہے۔
الجولانی اور ترکی کا گٹھ جوڑ
شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ الجولانی اور ان کے اتحادیوں کی کئی سیاسی فیصلے براہ راست ترکی کی مشاورت اور مطالبات کے تحت ہوئے ہیں۔ الجولانی رژیم کے ارکان میں سے کم از کم تین افراد نے اپنی اعلی تعلیم ترکی کی یونیورسٹیوں میں حاصل کی ہے۔ وزیر انصاف، وزیر بلدیات اور دیگر حکام ترکی کی یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل ہیں۔ ترکی کے سیاسی حلقوں میں یہ اطلاعات بھی گردش کررہی ہیں کہ ترک انٹیلی جنس ایجنسی کے اعلی اہلکار ابراہیم کالین نے ایک خصوصی ماہر ٹیم تشکیل دی ہے۔ یہ ٹیم الجولانی حکومت کو ایک نئی انٹیلی جنس ایجنسی کے قیام میں مشاورت فراہم کرے گی۔
ترکی کے وزیرِ خارجہ ہاکان فیدان نے واضح طور پر کہا ہے کہ ترک انٹیلی جنس ایجنسی میت میں 13 سالہ خدمات کے دوران انہوں نے الجولانی سمیت تمام بشار الاسد مخالف گروہوں کے رہنماؤں سے رابطے کیے تھے۔ وہ اب الجولانی کی قیادت میں شام کی دہشت گرد حکومت کو اپنے تجربات فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ترکی کے حکام کے بیانات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اردوغان شام کے سیاسی عمل کو طویل کرنے کے لیے ایک حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں اور اس کے ذریعے وہ الجولانی اور اس کے اتحادیوں کی پوزیشن کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس حکمت عملی کے تحت شام کے اہم ادارے ترکی کے کنٹرول میں آئیں گے۔
نتن یاہو کی جارحیت اور الجولانی کی معنی خیز خاموشی
شام میں بشار اسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے اسرائیلی فضائیہ شام کے شہروں اور تنصیبات پر مسلسل حملے کررہی ہے۔ دمشق کے قریب واقع فوجی اڈوں کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ صہیونی جارحیت کے باوجود الجولانی حکومت نے ان حملوں کے خلاف کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
حالات اور شواہد سے ظاہر ہورہا ہے کہ صہیونی حکومت اور الجولانی رژیم کے درمیان منظم ہماہنگی موجود ہے کیونکہ ابھی تک الجولانی رژیم نے کوئی ردعمل نہیں دکھایا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ نتن یاہو نے دو مرتبہ جدید دور میں شام کی تعمیر نو کے لئے کم از کم دو ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔
The Cardle کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مغربی مبصرین کا ماننا ہے کہ الجولانی اور صہیونی حکومت کے درمیان پس پردہ ہماہنگی موجود ہے کیونکہ ماضی میں تحریر الشام کو النصرہ فرنٹ کہا جاتا ہے جس نے حزب اللہ اور شامی فوج سے جنگ کے دوران صہیونی حکومت کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ النصرہ فرنٹ نے عملی طور پر صہیونی فوجی حکام کی رہنمائی میں جنگ کی تھی۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے کئی مرتبہ مشاہدہ کیا تھا کہ النصرہ کے زخمی جنگجوؤں کو صہیونی ہسپتالوں میں طبی سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔ اسی خفیہ ہماہنگی کے تحت صہیونی فوج نے شام کے جنوب میں 500 مربع کلومیٹر سے زائد رقبے پر قبضہ کیا ہے جبکہ الجولانی رژیم نے اپنی زمین کے دفاع میں کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔
آپ کا تبصرہ