مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا ہے کہ شامی حکومت اپنے فیصلوں میں خودمختار تھی۔
شام میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ شام میں ہونے والی تبدیلیاں اس بڑے منصوبے کا حصہ ہیں جو امریکہ اور اسرائیل نے پورے علاقے کے لیے بنایا ہے اور جو وہ آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ علاقے کے ممالک کی صلاحیتوں کو کمزور کرنے، انہیں ایک دوسرے سے لڑانے اور اس طرح اسرائیل کے خلاف کسی بھی مزاحمت کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دوسرا زاویہ جو شام کی تبدیلیوں کو دیکھنے کا ہے، وہ خود شام کے اندرونی حالات اور حکومت اور عوام کے تعلقات، اور مخالفین کے حوالے سے ہے۔ ہم نے شام کی حکومت کی درخواست پر دہشت گردوں خاص طور پر داعش کے خلاف مدد کی۔ جب داعش عراق سے شروع ہوکر شام پہنچی تو بڑا خطرہ بن گئی تھی، جس کے نتیجے میں ایک عالمی اتحاد قائم ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے عراق کی حکومت کی درخواست پر مدد کی، پھر شام کی حکومت کی درخواست پر شام کی مدد کی اور جب داعش کے خلاف جنگ ختم ہوئی، ہم واپس چلے گئے۔ تاہم، ہم نے شام کی حکومت اور عوام یا مخالفین کے باہمی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی۔ جب شام کی فوج نے لڑنے سے انکار کیا، ہم نے کوئی اقدام نہیں کیا کیونکہ ہمارا مقصد یہ نہیں تھا کہ ہم شام کی فوج کی جگہ مخالفین سے لڑیں۔
عراقچی نے کہا کہ ہم آستانہ عمل کے تحت شام میں سیاسی اصلاحات میں مدد دینے کی کوشش کر رہے تھے اور اسی فریم ورک میں ہم نے شام کی حکومت کو بہت سی تجاویز پیش کیں۔ میں نے کئی بار شام کی حکومت، وزیر خارجہ اور حتی کہ بشار الاسد سے کہا کہ ترکیہ کے ساتھ مذاکرات شروع کریں۔ لیکن شام کی حکومت اور بشار الاسد مذاکرات کے حق میں نہیں تھے۔ شام کی حکومت کا خیال تھا کہ جب تک ترکی کی افواج شام کی سرزمین سے نہیں نکل جاتیں، وہ ان سے بات چیت نہیں کرے گی۔ ہمارا موقف یہ تھا کہ بہرحال مذاکرات فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔ آخری بار میری بشار الاسد سے ملاقات سقوط سے ایک ہفتہ پہلے تھی۔ اسی ملاقات میں میں نے دوبارہ کہا کہ وہ ترکی کے ساتھ بات چیت کریں۔ وہاں میں نے انہیں بتایا کہ شام کی فوج کا مورال کمزور ہے اور بشار الاسد کو چاہیے کہ وہ فوج کا حوصلہ بڑھائیں۔ جمعہ کے دن جب میں عراق میں شام کے وزیر خارجہ سے ملا، تو میں نے پھر سے یہی مشورے دیے، مگر اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے پہلے بھی اس قسم کی نصیحتیں کی تھیں لیکن بشار الاسد کا نظریہ مختلف تھا، ہم صرف مشورہ دینے کی حد تک بات کرتے تھے۔
آپ کا تبصرہ