مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: امریکہ اور مغربی ممالک نے خطے کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر مقاومت کو ختم کرنے کے لئے تکفیریوں کو سامنے لانے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں 2011 میں شام میں داعش کو لانچ کیا گیا۔ شام اور عراق میں بے گناہ شہریوں کے سر کاٹنے اور سر عام انسانیت سوز مظالم کی وجہ سے علاقائی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ مقاومتی تنظیموں نے خطے کے عوام کی مدد سے مغربی استکبار کے اس مکروہ منصوبے کو ناکام بنادیا۔
داعش پروجیکٹ کو مغرب اور ترکی کے لیے ایک ناکام تجربہ اور شکست خوردہ منصوبہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ ایک دہشت گرد گروہ تھا جو اپنے وحشیانہ اور بے رحم طریقوں سے علاقے میں تیزی سے پھیل رہا تھا اور اس کا مقصد مقاومت کو ختم یا کمزور کرنا تھا۔ اس منصوبے کا اصل ہدف شام، عراق اور لبنان میں مغرب کا پسندیدہ اور خودساختہ اسلامی نظام کا نفاذ تھا لیکن عوام اور مقاومتی بلاک کی استقامت کی وجہ سے یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔ داعش کو وجود میں لانے کا ایک مقصد اسرائیل کو محفوظ کرنا اور اس کی سرحدوں کو محفوظ بنانا تھا۔
پروجیکٹ داعش اگرچہ ناکام ہو گیا مگر ابھی تک مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ اس کا تسلسل آج کے دور میں تحریر الشام جیسے گروپوں کی صورت میں نظر آ رہا ہے، جو اسی طرح اسرائیل کے مفاد میں کام کر رہے ہیں۔ شام کی موجودہ صورتحال اور داعش کی ناکامی کے بعد بھی اس منصوبے کے اثرات موجود ہیں۔ تحریر الشام کے سرغنہ الجولانی نے اپنے بیانات میں اسرائیل کے خلاف حملوں کے لئے شام کو استعمال نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
چونکہ ایران مزاحمتی محور کا مرکزی ملک ہے اس لیے اس پروجیکٹ کا ایک مقصد ایران کو کمزور کرنا ہے۔ یہ منصوبے اب بھی جاری ہیں اور ان کا حتمی ہدف ایران ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے مہروں کے چہرے بدل کر پیش کیا جارہا ہے۔ ایک تکفیری دہشت گرد کے جسم پر سوٹ اور ٹائی پہنا دی جاتی ہے اور اس کے چہرے اور داڑھی کو مرتب کر کے اسے ٹی وی کیمروں کے سامنے لایا جاتا ہے۔ دوسری طرف دہشت گرد گروہ کا رہنما اچانک لوگوں کو کافر قرار دینے سے دستبردار ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس منصوبے کے پیچھے کارفرما طاقتوں نے داعش کے منصوبے اور اس کی شدید ناکامی سے سبق سیکھا ہے اور اب کچھ تبدیلیوں کے ساتھ اسی منصوبے کو دوبارہ آزمایا جارہا ہے۔ الجولانی کے ان جملوں پر غور کریں "ہمیں حکومت کا ذہنیت اپنانا چاہیے، نہ کہ شام کی اپوزیشن کا۔ شام کو متحد رہنا چاہیے اور حکومت اور تمام قبیلوں کے درمیان ایک سماجی معاہدہ ہونا چاہیے تاکہ سماجی انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔ ہمارے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ کوئی ایسا حصہ نہ ہو جو علیحدگی کا باعث بنے۔
آپ کے خیال میں کیا یہ جملے کسی ایسے شخص کے اقوال لگتے ہیں جو صرف ۱۰ یا ۱۲ سال پہلے تک سر قلم کرنے پر فخر کرتا تھا؟! کیا یہ ایک داعشی کے اقوال ہوسکتے ہیں؟! یہ وہ آخری جملے ہیں جو جولانی نے شام پر قابض ہونے کے بعد کہے ہیں، اور یہ جملے ترک انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ نے لکھے اور ان کے سامنے رکھے ہیں!
ترکی نے امریکہ اور اسرائیل کے تعاون سے یہ ظاہری تبدیلیاں کرنے سے پہلے شام کی فوج اور دیگر حساس اداروں میں کچھ اہم اقدامات کیے ہیں۔ ان اقدامات میں بشار اسد کی غلطیوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا، شام کی عوام اور مقاومت کو کمزور کرنے کے لیے سخت اقتصادی اور غیر اقتصادی پابندیاں عائد کرنا شامل ہے۔ اس بار "بھیڑیے" (داعش) کے جسم پر "بھیڑ" کا لباس پہنا کر سامنے پیش کیا گیا ہے!
شام کے حالات بدلنے والے کہتے ہیں کہ بشار اسد کے جانے کے بعد شام کی حالت بہتر ہوجائے گی! لیکن یہ لوگ ان خبروں کا ذکر نہیں کرتے کہ شام کا بنیادی انفراسٹرکچر اسرائیل نے 500 سے زیادہ مرتبہ بمباری کرکے تباہ کردیا ہے۔ تکفیری دہشت گردوں سے کئی سال لڑنے کے بعد شام کی جو کچھ دفاعی طاقت بچی تھی اس کو اسرائیل نے تباہ کر دیا ہے۔
نتن یاہو نے کہا کہ جولان کا پورا علاقہ اسرائیل کا ہے اور وہ جبل الشیخ کی اسٹریٹیجک بلندیاں بھی نہیں چھوڑے گا۔ اردوان نے کہا کہ سلطنت عثمانیہ کے دور میں اگر ترکی کی تقسیم نہ ہوتی، تو آج دمشق تک پورا علاقہ ہمارا ہوتا۔
امریکہ بہادر نے کہا کہ وہ شام سے نکلنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ تکفیریوں کے قبضے کے شام کے مستقبل پر سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ہزاروں سرکاری ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ دسیوں ہزار شیعہ شامی اپنی جان بچانے کے لیے لبنان فرار ہو گئے ہیں۔ الجولانی نے دمشق کی فتح کے بعد جو باتیں کی تھیں، ان میں سے بہت ساری باتوں پر عمل نہیں کر رہا۔ تکفیری دہشت گردوں نے حضرت زینب (ع) کے حرم تک پہنچ کر وہاں سے تمام شیعی علامتیں ہٹا دیں اور کچھ نے ویڈیوز بناتے ہوئے کہا کہ ہم آئے ہیں تاکہ زینب کو دوبارہ قید کریں!۔
2011 کے بعد کی واقعات اور داعش کی تشکیل نے مقاومت کے لئے ایک موقع فراہم کیا۔ اسی منصوبے سے عراق میں "حشد الشعبی"، یمن میں "انصاراللہ"، افغانستان میں "فاطمیون" اور دیگر گروہ پیدا ہوئے۔ چنانچہ شہید جنرل قاسم سلیمانی نے کہا تھا کہ "میں تجربے سے یہ کہتا ہوں کہ بحرانوں میں جو موقع ہوتا ہے، وہ خود فرصت کے لمحات میں نہیں ہوتا۔ مگر شرط یہ ہے کہ ہم نہ ڈریں، نہ خوف پیدا کریں اور نہ دوسروں کو ڈرائیں..."
الغرض امریکہ اور اس کے بین الاقوامی اور علاقائی اتحادیوں نے مقاومت کو ختم کرنے کے لئے اپنے مہروں کو شکل و صورت بدل کر دوبارہ میدان میں اتارا ہے لیکن داعش کی طرح تحریر الشام کو بھی خطے کے عوام اور مقاومت کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست ہوگی۔
آپ کا تبصرہ