مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق عراق اور شام میں سرگرم داعش سلفی وہابی دہشت گرد تنظیم کے بارے میں مختلف سوالات ذہن میں پیدا ہورہے ہیں جن میں ایک سوال یہ ہے کہ اگر یہ دہشت گرد تنظیم اسلامی خلافت قائم کرنے کی تلاش میں ہے تو پھر اس نے اپنا رخ اسرائیل اور سعودی عرب کے بجائے شام، عراق، پاکستان، افغانستان کی طرف کیوں کیا ہے ؟اسے تو اسلامی خلافت قائم کرنے کے لئے بیت المقدس یا مکہ مکرمہ کا انتخاب کرنا چاہیے تھا اور اسلامی خلافت کا سلسلہ بیت المقدس یا ریاض سے شروع کرنا چاہیے تھا لیکن ذرا غور کرنے اور تحقیق کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ داعش دہشت گرد تنظیم کا اسلام کے اصولوں سے کوئي واسطہ نہیں یہ تنظیم علاقہ میں امریکہ اور اسرائیل کے ایجبنڈے پر کام کررہی ہے اور وہ اسرائیل کے تعاون سے معاویہ ،یزيد اور امریکی اسلام کو خطے پر مسلط کرنے کی تلاش و کوشش میں ہے ۔عالم اسلام میں یزید اور معاویہ کے اسلام کو امریکی اسلام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
داعش دہشت گرد تنظیم اور سعودی عرب کے اقدامات کی وجہ سے فلسطینیوں پر اسرائیل کے بہیمانہ اور خوفناک مظالم پس پردہ چلے گئے ہیں بیت المقدس کی آزادی کا مسئلہ مسلمانوں کے ذہنوں سے بتدریج محو ہورہا ہے کیا داعش دہشت گردوں کے اندر تل ابیب میں کارروائی کرنےکی ہمت نہیں ؟ ان میں اسرائیل پر حملہ کرنے کی ہمت ہے لیکن وہ ایسا کرنا نہیں چاہتے کیونکہ وہ اسلامی ممالک کم کمزور بنانے میں امریکی اور اسرائیل منصوبے کے تحت عمل کررہے ہیں اور امریکہ و سعودی عرب نے ملکر انھیں اسرائیل کے تحفظ پر مامور کررکھا ہے۔
آپ کا تبصرہ