مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران اور روس کے وزرائے خارجہ نے ماسکو میں ملاقات کے بعد دونوں ممالک کی وزارت خارجہ کے درمیان تعاون کے ایک اہم دستاویز پر دستخط کیے۔ یہ دستاویز ایران-روس جامع اسٹریٹجک معاہدے پر عملدرآمد کے تناظر میں تیار کی گئی ہے، جس میں 2026 سے 2028 تک کے لیے دوطرفہ مشاورتی پروگرام کو روڈ میپ کی شکل دی گئی ہے۔
دستخط کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ آج دوطرفہ، علاقائی اور بین الاقوامی امور سمیت تمام شعبوں میں انتہائی قریبی اور تفصیلی مذاکرات ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں بالخصوص رواں سال کے دوران ایران اور روس کے تعلقات میں نمایاں وسعت آئی ہے۔ 17 جنوری 2025 کو دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے جامع شراکت داری معاہدے کے بعد تعاون ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور اب یہ معاہدہ عملی مرحلے میں ہے، جس کے تحت دونوں فریق متعین وژن کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں۔ آج طے پانے والا مشاورتی ایجنڈا آئندہ تین برسوں کے لیے تعاون کی سمت متعین کرے گا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے بتایا کہ ایران اور روس کے اقتصادی تعلقات میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ توانائی، نقل و حمل اور ٹرانزٹ کے شعبوں میں تعاون تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، خاص طور پر شمال-جنوب راہداری اور اس کے رشت-آستارا حصے میں پیش رفت جاری ہے۔ دوطرفہ تجارت میں اضافہ ہورہا ہے اور نئے شعبوں میں توسیع کے امکانات تلاش کیے جا رہے ہیں، جبکہ دونوں ممالک کا مشترکہ اقتصادی کمیشن فروری میں 17 خصوصی ورکنگ گروپس کے ساتھ منعقد ہوگا۔
جوہری معاملے پر بات کرتے ہوئے عباس عراقچی نے واضح کیا کہ ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کا پابند اور اپنی تمام ذمہ داریوں پر کاربند ہے، تاہم اس معاہدے کے تحت اپنے قانونی حقوق سے دستبردار نہیں ہوگا۔ افزودگی سمیت جوہری توانائی کا پرامن استعمال ایران کا ناقابل تنسیخ حق ہے، جسے کسی صورت ختم نہیں کیا جاسکتا۔
عراقچی کے مطابق اگرچہ امریکہ اور صہیونی حکومت کے حملوں سے ایران کی بعض جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچا، تاہم یہ حملے نہ تو ملکی ٹیکنالوجی کو تباہ کرسکے اور نہ ہی اسلامی جمہوری ایران کے عزم کو کمزور کرسکے۔
انہوں نے بتایا کہ ایران اور روس علاقائی مسائل پر بھی مشاورت کررہے ہیں، جن میں غزہ میں اسرائیلی نسل کشی سرفہرست ہے۔
دوسری جانب روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ ماسکو برکس کی مکمل حمایت کے لیے تیار ہے اور امریکی بالادستی کے خلاف کھڑا رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایران اور روس کے دشمن دوطرفہ تعلقات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں، تاہم دونوں ممالک برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسے فورمز میں تعاون کو مزید مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔
لاوروف نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ امریکہ اور اسرائیل کے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کے حوالے سے واضح اور مؤثر مؤقف اختیار کرنے میں ناکام رہا ہے۔
آپ کا تبصرہ