مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تکفیری دہشت گرد تنظیم ہیئت تحریر الشام (HTS) اور ادلب اور لطاکیہ کے مضافات میں موجود اس کے اتحادی دہشت گرد جتھوں نے لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے فورا بعد ہی حلب پر حملے شروع کر دئے۔
رپورٹس کے مطابق دہشت گردوں نے اب تک حلب کے تقریباً 40 فیصد حصے پر قبضہ کر لیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ شامی فوج اچانک ان حملوں کا شکار ہوگئی ہے۔
سیاسی مبصرین شام کے شمال اور شمال مغرب میں ہونے والی موجودہ نقل و حرکت کے بارے میں فکر مند ہیں کہ جس سے ایک بار پھر خانہ جنگی کی تلخ یادیں تازہ ہو جائیں گی اور عرب ملک کا پہلے سے تباہ حال انفراسٹرکچر تکفیری دہشت گردوں کی سفاکیت کا شکار ہو جائے گا۔
مہر خبررساں ایجنسی کی انگریزی ڈیسک نے مغربی ایشیائی امور کے تجزیہ کار احسان کیانی سے رابطہ کیا جنہوں نے شام میں دہشت گردوں کے مضبوط ہونے کو پورے خطے کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے امن کے خواہاں ممالک کی جانب سے شام کی حمایت کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ذیل میں کا انٹرویو شائع کیا جارہا ہے۔
مہر نیوز: شام میں موجودہ دہشت گردانہ حملوں کے حوالے سے، ایران، شامی فوج اور روس کو کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟
پروفیسر کیانی: مقبوضہ علاقوں کی خصوصیات کے حوالے سے دور اندیشی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے، ان سوالات پر غور کیا جانا چاہئے: مخالف گروہوں کی سماجی بنیاد کیا ہے؟
ان کے پاس کتنی لاجسٹک سپورٹ ہے؟
کیا انہیں کوئی بین الاقوامی شناخت حاصل ہے؟
کیا حلب اور دیگر علاقوں پر قبضہ کرنے کا مقصد شام کو تقسیم کرنا ہے یا پھر شامی حکومت کو پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور کرنا ہے؟
ان سوالات کے جوابات جانے بغیر مقبوضہ علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے سنجیدہ کارروائی نہیں کی جا سکتی، اگرچہ فی الوقت حما اور حمص کے علاقوں میں اس پیش قدمی کو روکنا ضروری ہے۔
کیا شام پر اسرائیل کی مسلسل فضائی جارحیت کا مقصد دہشت گرد گروہوں کو تقویت پہنچانے کے لئے شامی فوج کی پوزیشن کمزور کرنا ہے؟
ان فضائی حملوں سے دہشت گرد گروہوں کو فائدہ ہوا ہے کیونکہ انھوں نے مزاحمتی فورسز کے فوکس اور توانائی کو جنوبی علاقوں اور گولان کی پہاڑیوں کی طرف موڑ دیا ہے، جس سے شام کے شمالی اور شمال مغربی علاقوں پر تیزی سے توجہ مرکوز کرنے کا امکان ختم ہو گیا ہے۔
کیا شام میں افراتفری کے لیے علاقائی ممالک کی حمایت ان دہشت گرد گروہوں کو طاقتور بنانے میں کارگر ثابت ہوئی ہے؟
ترکی کی طرف سے ان دہشت گرد گروہوں کی مالی اور فوجی مدد ان کی پوزیشن مضبوط کرنے میں بہت کارگر رہی ہے۔ عرب خلیجی ممالک بھی انہیں سیاسی مدد فراہم کرنے لگیں تو یہ مزید موثر ہوگا، البتہ سیاسی حمایت سے زیادہ اہم میڈیا کی حمایت ہے، جو ہیئت تحریر الشام جیسے گروپوں کو دوبارہ گراونڈ دے کر اپنی سماجی بنیاد کو مضبوط کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
ان گروہوں کا تکفیری اور بنیاد پرست گروہ سے ایک جدید اور نیم سیکولر گروہ میں تبدیل ہو جانا قبضہ گیری کو جاری رکھنے کے امکانات کو بڑھا دیتا ہے۔
دہشت گرد گروہوں کی تقویت کے ذریعے شامی حکومت کو کمزور کرنے کی پالیسی کے علاقائی امن و استحکام کے لئے کیا نتائج ہیں؟
اگر مقبوضہ علاقوں پر قبضہ جاری رہتا ہے تو شام کو تین حصوں یعنی علوی، سنی اور کرد علاقوں میں تقسیم کرنے کے لئے راہ ہموار ہو جائے گی اور اگر ایسی کوئی صورت پیش آتی ہے، چاہے وہ غیر سرکاری اور شام کے آئین کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، تب کچھ مدت بعد اس طرح کا منصوبہ عراق تک پھیلانا ممکن ہوجائے گا اور عراق میں کچھ ناراض سنی طبقے بھی اس طرح کی تقسیم کا مطالبہ کرنے لگ جائیں گے۔
اور مختصر مدت میں داعش جیسے تکفیری گروہوں کے عناصر بھی عراق میں سرگرم ہو سکتے ہیں اور ملک کا استحکام خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ لبنان میں حزب اللہ کی حمایت کو کمزور کرنے سے اسرائیل جنگ بندی کی خلاف ورزی کے دائرے کو بڑھاتے ہوئے ایک بار پھر جنوبی لبنان کو فضائی اور زمینی حملوں کا نشانہ بنائے گا۔
کیا شامی حکومت کو کمزور کرنے سے خطے میں غیر علاقائی طاقتوں کی موجودگی اور نا امنی نہیں بڑھے گی؟
امریکی صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی جیت کے پیش نظر اس بات کا امکان نہیں ہے کہ امریکہ شام میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ کرنے کی کوشش کرے گا، تاہم شام میں ڈرون آپریشنز سمیت امریکی اور اسرائیلی فضائی حملوں میں اضافے سے خطے میں عدم استحکام پھیل سکتا ہے۔
آپ کا تبصرہ