مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: کچھ عرصہ قبل صیہونی رجیم کے ذرائع ابلاغ نے خبر دی تھی کہ غاصب رجیم نے مئی 2023 میں قبرص میں "بلیو سن" نامی مشقوں کا انعقاد کیا تھا، جو لبنان پر حملے کا ایک عملی اور آزمائسی نمونہ تھیں۔
مذکورہ ذرائع ابلاغ کے مطابق صیہونی رجیم نے حالیہ برسوں میں یونان اور قبرص کے ساتھ ایک نیا اسٹریٹجک اتحاد قائم کیا ہے۔
ادھر لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے اپنے حالیہ خطاب میں قبرص کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے لبنان پر حملہ کرنے کے لیے اپنے ہوائی اور فوجی اڈے صیہونی رجیم کو دیے تو وہ قبرص کے ساتھ ایک دشمن اور صیہونی جارحیت میں شراکت دار ملک کی طرح سلوک کرے گا۔
قبرص کے صدر نے بھی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ان کا ملک علاقائی تنازعات میں مداخلت نہیں کرتا۔
روزنامہ رائ الیوم نے اس سلسلے میں لکھا: یونان کی طرح قبرص نے حالیہ برسوں میں صیہونی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھایا ہے۔ دونوں فریقوں کے درمیان فوجی اور سیکورٹی تعاون میں بھی اضافہ ہوا ہے تاکہ صیہونی فوج قبرص میں مشترکہ فوجی مشقیں کرے۔ لبنان کی سرحد کے ساتھ تنازعات میں اضافے کے ساتھ، صہیونی دشمن نے قبرص کے ساتھ اپنے تعلقات کو غلط استعمال کیا ہے اور لبنان پر حملے کے لیے ملک کی فضائی حدود کو استعمال کیا ہے۔ لبنان کی حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کی دھمکیوں کے بعد قبرصی حکام کے الفاظ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان دھمکیوں کا اثر ہوا ہے، کیونکہ قبرص لبنانی جانب سے شامی پناہ گزینوں کی اس ملک میں آمد سے خوفزدہ ہیں اور ساتھ ہی اس جنگ میں ملوث ہونے سے بھی خوفزدہ ہیں۔
خطے کی تزویراتی صورت حال کو دیکھتے ہوئے کیا قبرص معقول راستہ اختیار کرے گا یا پھر صیہونی حکومت کے دام میں پھنس جائے گا؟
یہ اس وقت ہے جب قبرص کے باشندے اپنے ملک میں نوآبادیاتی نظام کی مختلف شکلوں کے مخالف ہیں، چہ جائیکہ ہمسایہ ملک کے معاملات میں قبرص کی مداخلت کو قبول کریں۔
لبنان روزنامہ الاخبار نے بھی اس حوالے سے لکھا ہے: لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے قبرصی حکام کو اس ملک کے خلاف کسی بھی جارحیت میں شرکت کے حوالے سے حالیہ انتباہ کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔
ان انتباہات کے اگلے ہی دن قبرص کی حکومت نے واضح کیا کہ وہ کسی فوجی تنازع میں مداخلت نہیں کرے گی اور اس ملک کے حکام قبرص کو دوسرے ممالک پر حملہ کرنے کا پلیٹ فارم نہیں بننے دیں گے۔ باخبر ذرائع نے الاخبار کے ساتھ گفتگو میں تاکید کی کہ سید حسن نصر اللہ نے یہ تقریر قبرص انٹیلی جنس آرگنائزیشن کے ایک وفد کے بیروت کے سفر کے موقع پر انتباہ کے طور پر کی تھی۔
روزنامہ القدس العربی نے صیہونی حکومت کے بارے میں لکھا: جب کہ غزہ کی پٹی کے خلاف صیہونی حکومت کی جارحیت جاری ہے، تاہم صیہونی اب بھی ۸۰ کی دہائی کی رسوائی سے خوفزدہ ہیں۔
مقبوضہ علاقوں میں خاص طور پر طوفان الاقصی اور حزب اللہ کے حملوں میں شدت، صیہونیوں کو 80 کی دہائی کی شکست کے بارے میں پچھلے مہینوں سے کہیں زیادہ بات کرنے پر مجبور کر رہی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ صہیونیوں کی حکومت 80 سال سے زیادہ نہیں رہے گی۔
نیز، "قیامت کے منظر نامے" کے ادراک کے ساتھ جو ایک ہمہ گیر جنگ کے وقوع پذیر ہونے کے بعد، صہیونی مقبوضہ سرزمین سے مغربی ممالک کی طرف بھاگ جائیں گے۔ یہ وہی چیز ہے جس نے صیہونی رجیم کی بنیاد کو ہلا کر رکھ دیا
شام کے روزنامہ الثورہ نے "مکڑی کے جالے" کی سرخی جماتے ہوئے لکھا ہے کہ طوفان الاقصیٰ کے بعد صیہونی حکومت کے خاتمے کے آثار تیزی سے رونما ہوئے ہیں۔ صیہونی دشمن کی آج کی ناکامی مزاحمتی محور کی فتح کا آغاز ہے، خاص طور پر لبنانی حزب اللہ کے جاسوسی ڈرون آپریشن کے بعد، جس نے امریکہ اور تل ابیب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اب کھیل کے اصول بدل چکے ہیں اور امریکہ کو اس مسئلے کو قبول کرنا ہوگا۔
شام کے اخبار الوطن نے صیہونی رجیم کے بارے میں لکھا ہے: گزشتہ 9 ماہ کے دوران ہم نے اکثر تنازعات کے محاذوں میں صیہونی فوج کو مزاحمتی قوتوں کے سامنے ہتھیار ڈالتے مشاہدہ کیا۔ بڑی تعداد میں ہلاک اور زخمی ہونے نیز متعدد صہیونی افسروں کے مستعفی ہونے کے ساتھ ساتھ افرادی قوت میں کمی کے بعد صہیونی فوجیوں کے حوصلے بہت پست ہو گئے ہیں۔ آباد کاروں کو بھی اب شمالی علاقوں میں اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کی حکومتی صلاحیت پر بھروسہ نہیں ہے۔ کیا اس صورت حال میں صیہونی رجیم لبنان کے ساتھ ایک اور جنگ شروع کر سکتی ہے؟
یمنی روزنامہ المسیرہ نے اس ملک میں امریکی جاسوسی نیٹ ورک کے ٹوٹنے کے بارے میں لکھا ہے: اس جاسوسی نیٹ ورک کے ارکان کی گرفتاری یمن کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔ اس کارروائی سے صنعاء نے واشنگٹن کو ایک اہم پیغام بھیجا کہ امریکہ یمنی سیکورٹی فورسز کی کڑی نظر میں ہے۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ امریکی اینٹیلی جنس دنیا کی اعلی ترین خفیہ سروسز میں سے ہیں اور یمنیوں نے اس کارروائی کے ذریعے اپنی اینٹیلی جنس برتری ثابت کر دی۔
روزنامہ المراقب العراقی نے امریکہ کے بارے میں لکھا ہے: امریکی پابندیوں کے سہارے اسلامی مزاحمتی قوتوں سے اپنے خوف کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ پوری تاریخ میں مزاحمتی محور نے امریکی پابندیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے درست سمت میں آگے بڑھنے کا موقع سمجھا ہے۔ عراقی مزاحمت کی طرف سے امریکی جارحیت پسندوں کو اس ملک سے نکالنے کی درخواستوں اور جارحیت پسندوں کے ٹھکانوں پر ان افواج کے حملوں نے امریکیوں میں مزید خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔
آپ کا تبصرہ