مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے تہران میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کے ساتھ ایک ملاقات میں کہا کہ سلامتی کونسل میں جنگ بندی قرارداد اگرچہ تاخیر سے منظور ہوئی لیکن ایک مثبت اقدام ہے جسے فلسطینی قوم کی میدان جنگ میں ثابت قدمی کے نتیجے کے طور پر ایک سیاسی فتح سمجھا جاتا ہے۔
امیر عبداللہیان نے یہ کہتے ہوئے کہ ہنیہ کا دورہ تہران ایک اہم واقعہ ہے، حماس کے سربراہ کو یقین دلایا کہ اس سال قدس کی ریلیاں زیادہ شاندار ہوں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی عوام کے خلاف غیر معمولی اور ان گنت جرائم کے ارتکاب کے باوجود صیہونی حکومت اپنے اعلان کردہ اسٹراٹیجک اہداف میں سے کوئی ایک بھی حاصل نہیں کرسکی اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مکمل حمایت کے باوجود غاصب رجیم اپنے شوم مقاصد میں ناکام رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کی پٹی میں انتہائی مشکل اور تکلیف دہ حالات کے باوجود فلسطینی عوام اور مزاحمت کو بہت سی فتوحات حاصل ہوئی ہیں۔
اس ملاقات میں حماس کے سربراہ نے کہا کہ غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے وحشیانہ اور نسل کشی کے جرائم کے تسلسل کے باوجود مزاحمت اور فلسطینی عوام اب بھی مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہیں۔
انہوں نے غزہ جنگ کے دوران فلسطین کی حمایت میں ایران کی سفارتی کوششوں کو بھی سراہا۔
اسماعیل ہنیہ نے کہا کہ صیہونی جنگ کے خاتمے کو ایک اسٹریٹجک ناکامی سمجھتے ہیں اور اس کا پہلا نتیجہ نیتن یاہو کا سیاسی زوال ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکا نے ابھی تک اپنے موقف اور صیہونی حکومت کی حمایت میں کوئی تزویراتی تبدیلی نہیں کی ہے۔
حماس کے سربراہ نے اسلامی ممالک اور او آئی سی کی طرف سے فلسطینی قوم کی حمایت کے لیے ایک موثر بین الاقوامی تحریک کی تشکیل کے لیے مزید سنجیدہ اور موثر اقدام پر بھی زور دیا۔
یاد رہے کہ اسرائیل نے 7 اکتوبر کو غزہ کے خلاف امریکہ کی حمایت میں حملے اس وقت شروع کئے جب حماس نے فلسطینی عوام کے خلاف اس حکومت کے شدید مظالم کے ردعمل میں طوفان الاقصی کی تاریخی کارروائی کی۔
صیہونی جارحیت کے نتیجے میں اب تک کم از کم 32,142 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں جب کہ 74,412 افراد زخمی ہو چکے ہیں۔
اسرائیل جان بوجھ کر غزہ کے لوگوں کو خوراک تک رسائی روک کر بھوکا مار رہا ہے جب کہ یہ عمل جنیوا کنونشنز کے تحت واضح جنگی جرم ہے۔
آپ کا تبصرہ