مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کیسپین ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں کہا: بحیرہ کیسپین ایک مشترکہ میراث اور ہمارے درمیان دوستی کا ذریعہ ہونے کے ساتھ اس سے متصل ممالک کے 270 ملین سے زیادہ لوگوں کے لیے روزگار کا مرکز ہے۔ لہذا ہمیں آئندہ نسلوں کے لیے اس قیمتی الہی ورثے کی حفاظت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
امیر عبداللہیان کی تقریر کا متن درج ذیل ہے:
بسم الله الرحمن الرحیم
جنان محترم لاوروف اور عزیز ساتھیو۔
سب سے پہلے، ہم 16,000 سے زیادہ حالیہ فلسطینی شہداء کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ البتہ غزہ میں اسرائیلی حکومت کی نسل کشی کے بارے میں بعد میں بات کروں گا۔
بحیرہ کیسپین کے ساحلی ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کا انعقاد ہمیشہ اس سمندر کے مسائل کے ساتھ ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی مسائل کے بارے میں باہمی غور و فکر کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے اور یہ پانچوں ممالک کی ترقی اور تعاون میں مضبوطی کا باعث بنتا ہے۔
مجھے امید ہے کہ یہ سربراہی اجلاس بحیرہ کیسپین میں تعاون کے تمام شعبوں میں مزید وسعت کا باعث بنے گا۔
میں جناب لاوروف کا روسی فیڈریشن کی میزبانی میں اجلاس کے انعقاد پر تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
حضرات محترم؛ بحیرہ کیسپیئن ایک مشترکہ ورثہ ہونے کے علاوہ ہمارے درمیان دوستی کا مرکز بھی ہے اور اس سمندر سے متصل ممالک کے 270 ملین سے زیادہ لوگوں کے لیے خیر اور برکت کا ذریعہ بھی ۔ جیسا کہ ہمارے آباؤ اجداد نے ہمیں اس قیمتی الہٰی تحفے کی سفارش کی ہے، ہمیں اس قیمتی تحفے کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
بحیرہ کیسپین کا علاقہ ایک سٹریٹجک خطہ ہے جو شمال-جنوب اور مشرقی-مغربی راہداریوں کا سنگم ہے۔ اس بحری علاقے میں سیکیورٹی نہایت ضروری ہے جس کے لئے ہم سب بحری استحکام، سلامتی اور پائیدار ترقی کو برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ جون 2022 میں اشک آباد میں چھٹے کیسپین سربراہی اجلاس اور ہماری ملاقات کو ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس سربراہی اجلاس میں اہم فیصلے کیے گئے اور اس کے بعد بحیرہ کیسپین کے ساحلی ممالک کے خصوصی نمائندوں کے درمیان "کیسپئن سی ایشوز پر اعلیٰ عہدے داروں کے ورکنگ گروپ" کے فریم ورک میں میٹنگز اور بھرپور کوششیں بھی جاری رہیں۔
اس کے باوجود بحیرہ کیسپین میں پنج فریقی تعاون کے عمل میں تیزی آنی چاہئے ۔ کیونکہ یکطرفہ اقدامات، دوسرے ساحلی ممالک کے مفادات سے قطع نظر، دوسروں کے حقوق اور مفادات کی خلاف ورزی کا بھی باعث بنتے ہیں۔ ہم اب بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس سمندر کے مسائل سے متعلق تمام فیصلے پانچ ساحلی ممالک کے اتفاق رائے اور باہمی معاہدے سے ہونے چاہئیں اور ہمیں بحیرہ کیسپین میں تعاون کے سلسلے میں مزید فعال کردار ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
محترم ساتھیو؛ بحیرہ کیسپین کو دوستی، ترقی اور توسیع کی حقیقی علامت میں تبدیل کرنے کے لیے ہمیں اجتماعی تعامل اور تعاون کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے پاس اس حوالے سے تعاون کے ادارہ جاتی ڈھانچے کی طرف بڑھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اور اس سلسلے میں ایک سیکرٹریٹ یا ایک ورکنگ گروپ بنانا ضروری ہے جو بحیرہ کیسپین میں تعاون کے تمام شعبوں کا انتظام اور نگرانی کر سکے۔ اسلامی جمہوریہ ایران سمندری معیشت کی ترقی اور بحری نقل و حمل، بندرگاہوں اور نیوی گیشن، ماہی گیری، سمندری سیاحت، آزاد تجارتی زونز کی تشکیل اور زندہ وسائل کے معقول اور پائیدار استعمال کے شعبوں میں مشترکہ سرمایہ کاری کا خیرمقدم کرتا ہے۔
بحیرہ کیسپین میں اقتصادی اور تجارتی تعاون اور نقل و حمل کو مضبوط کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ ساحلی ممالک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ڈرائیونگ انجن کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیسپین اکنامک کانفرنسز کا انعقاد اجتماعی تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے ایک موزوں پلیٹ فارم ہے۔
بدقسمتی سے تہران میں وزرائے اعظم کی موجودگی کے ساتھ تیسری کیسپین اقتصادی کانفرنس کا انعقاد تمام ساحلی ممالک کے سابقہ معاہدے اور ہم آہنگی اور بنائے گئے منصوبوں کے باوجود ملتوی کر دیا گیا۔ ہم کیسپین کے ساحلی ممالک کے وزرائے اعظم کی سطح پر اس کانفرنس کے انعقاد کے لیے ایک نئی تاریخ تجویز کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کانفرنس کا باقاعدہ انعقاد اور اس کے فیصلوں پر عمل درآمد پانچوں ساحلی ممالک کے معاشی مفادات کو پورا کرے گا۔
اس کے علاوہ حالیہ برسوں میں، بحیرہ کیسپین میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ساحلوں کے آس پاس سیاحت کی ترقی کے میدان میں ہوٹلوں کی تعمیر اور تفریحی سہولیات کے شعبوں میں اچھی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ کیسپین کے ساحل میں سیاحت کی صنعت کی توسیع سے خطے کی خوشحالی اور ترقی کے لیے اچھی سہولیات اور صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں۔
حضرات؛ بحیرہ کیسپیئن کی قانونی حیثیت سے متعلق کنونشن بحیرہ کیسپین میں چار سمندری علاقوں میں پانچ ساحلی ممالک کے درمیان تعاون کے حقوق، فرائض اور عمومی فریم ورک کی وضاحت کرتا ہے۔ تاہم ان علاقوں میں حقوق، خصوصی، اجتماعی دائرہ اختیار کے لیے ایک حد کھینچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
بحیرہ کیسپیئن میں داخلی اور علاقائی پانیوں، ماہی گیری کے علاقے اور مشترکہ پانی کے علاقے کی درست حد کا تعین کرنے کی ضرورت اصل ہے۔
اگرچہ "کیسپین ایشوز پر اعلیٰ عہدے داروں کے ورکنگ گروپ" کی شکل میں اب تک میٹنگز اور مذاکرات کے چھے دور منعقد ہو چکے ہیں تاکہ "بحیرہ کیسپین میں اسٹارٹنگ خطوط کا براہ راست تعین کرنے کے طریقہ کار پر معاہدے" کو حتمی شکل دی جا سکے۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ اس دستاویز کو مکمل کرنے کے لیے مذاکرات کا عمل سست اور غیر تسلی بخش ہے۔
البتہ ہمیں امید ہے کہ اس ورکنگ گروپ کا ساتواں اجلاس جلد از جلد باکو میں منعقد ہوگا اور اس کے نتیجہ خیز نتائج برآمد ہوں گے۔
میری تجویز ہے کہ اس ورکنگ گروپ کی میٹنگ مختصر وقفوں پر اور کم از کم ہر تین ماہ میں ایک ساحلی ملک میں منعقد کی جائے تاکہ ہم اس معاہدے کے مسودے کو جلد حتمی شکل دے سکیں۔ بحیرہ کیسپین میں متعدد پنج فریقی تعاون کی دستاویزات کی تالیف اور نفاذ کا انحصار اصل خطوط پر کسی معاہدے تک پہنچنے پر ہے۔
محترم ساتھیو؛ اس وقت ہمارے سامنے بہت سے ماحولیاتی خطرات اور چیلنجز ہیں جن کے حل کے لیے پانچ ساحلی ممالک کے اجتماعی تعاون کی ضرورت ہے۔
سب سے اہم چیلنج انسانی اور غیر انسانی عوامل کی وجہ سے بحیرہ کیسپین کے پانی کی سطح میں کمی کا خطرہ ہے جس میں بحیرہ کیسپین میں داخل ہونے والے دریاؤں کے پانی کے حجم میں کمی، موسمیاتی تبدیلیاں، ڈیموں کی تعمیر، آبی ذخائر، صنعتی اور زرعی سہولیات قابل ذکر ہیں۔
بدقسمتی سے حالیہ برسوں میں بحیرہ کیسپین کے بیک واٹر کے تسلسل نے بندرگاہوں اور جہاز رانی کی سہولیات، ماحولیاتی نظام، آبی حیات پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور ساحلی علاقوں میں آلودگی میں اضافے کا سبب بنی ہے۔
بحیرہ کیسپین کے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے یقینی طور پر پانچ ساحلی ممالک کے اجتماعی عزم کی ضرورت ہے۔
ہم "کیسپین سی ایشوز پر اعلیٰ عہدے داروں کے ورکنگ گروپ" سے کہتے ہیں کہ وہ پانچ ساحلی ممالک کے متعلقہ اداروں کے تعاون اور سائنسی اور آپریشنل نقطہ نظر کے ساتھ اس مسئلے کو اپنے ایجنڈے اور ترجیحات میں شامل کرے۔
خوش قسمتی سے 9 سال کے بعد بحیرہ کیسپین کے ساحلی ممالک کے ماحولیات کے وزراء کے مشاورتی اجلاس میں تہران کنونشن کے سیکرٹریٹ کے قیام کے لیے ایک اچھا معاہدہ طے پایا جو کہ گزشتہ ستمبر میں جنیوا میں منعقد ہوا تھا۔
امید ہے کہ خصوصی ورکنگ گروپ اس معاہدے کی بنیاد پر باکو میں اپنا پہلا مشترکہ اجلاس منعقد کرے گا۔ بحیرہ کیسپین کے ماحول کے براہ راست اور مسلسل انتظام کے لیے ضروری ہے کہ "تہران کنونشن" کے سیکرٹریٹ کو بحیرہ کیسپین سے متصل ممالک میں منتقل کیا جائے۔ آج سیکورٹی ایک مشترکہ مسئلہ ہے۔
خطے کے کسی بھی حصے میں عدم استحکام دوسرے خطوں کی سلامتی کو متاثر کرتا ہے
اس لیے ہم اس نقطہ نظر سے غزہ میں ہونے والی پیش رفت پر توجہ دینا چاہتے ہیں۔ اس وقت بھی جب ہم یہاں بیٹھے ہیں، غاصب صیہونی حکومت کے غزہ کے نہتے عوام کے خلاف وحشیانہ حملوں کا نیا سلسلہ جاری ہے۔ غزہ کی صورت حال ایک ’بحران‘ سے ’عظیم انسانی المیے‘ میں بدل چکی ہے۔
ایسی صورت حال میں جب بہت سے لوگوں کو امید تھی کہ عارضی جنگ بندی ایک مستحکم اور مستقل جنگ بندی میں بدل جائے گی، اسرائیلی حکومت ملکی اور بین الاقوامی رائے عامہ کے دباؤ کے باوجود غزہ میں جرائم اور نسل کشی کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں اب تک 16 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور ان میں 10 ہزار سے زائد بچے اور خواتین ہیں۔
لاکھوں رہائشی مکانات اور سینکڑوں ہسپتال، طبی مراکز، سکول، مساجد اور گرجا گھر تباہ ہو چکے ہیں
یہ خوفناک کارروائیاں جنگی جرائم اور اجتماعی قتل عام کی نمائندگی کرتی ہیں، جو بین الاقوامی قوانین کے اصولوں اور قواعد کے خلاف ہے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی اور سزا کی ضرورت ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا خواتین اور بچوں کے قتل اور غزہ میں صحافیوں، طبی عملے اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنانے کے افسوسناک اعدادوشمار صیہونی حکومت کے غیر انسانی اور مجرمانہ اقدامات کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں؟
کیا عالمی برادری اب بھی غزہ میں جنگی جرائم اور نسل کشی کو دیکھنے کا ارادہ نہیں رکھتی ہے؟ جب کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کے خصوصی نمائندے سمیت دنیا کے بہت سے کارکنوں اور انسانی حقوق کے اہم اداروں نے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی نسل پرست حکومت کے اقدامات کو واضح طور پر انسانیت کے خلاف جنگی جرم قرار دیا ہے۔
یونیسیف اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی طرف سے شائع کردہ اعدادوشمار کا جائزہ اس حقیقت کو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیلی حکومت بین الاقوامی سطح پر بچوں کے خلاف جرائم کے ارتکاب میں پہلے نمبر پر ہے جب کہ بچوں کے قتل کی یہ مقدار حالیہ برسوں میں ہمارے خطے اور دنیا کے دیگر حصوں میں جنگ اور خونریزی کرنے والے انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں میں سے کسی کے ریکارڈ میں بھی اس حد تک ہوشربا نہیں ہے۔
بلاشبہ امریکہ اس جنگی مشین کو ایندھن اور ان جرائم کے لیے ہمہ گیر مدد فراہم کرتا ہے۔
اس اقدام سے امریکہ نے عالمی برادری میں نفرت کو ہوا دی ہے اور ساتھ ہی بین الاقوامی اداروں کو غیر موئثر اور غیر فعال بنا دیا ہے۔
اس صورت حال کو روکنے کے لیے غزہ میں صہیونی رجیم کے بہیمانہ جرائم پر محض نفرت کا اظہار کرنا کافی نہیں ہے۔ اس قابل قدر اجلاس سمیت تمام علاقائی اور بین الاقوامی نشستوں میں ضروری ہے کہ ایک متفقہ موقف اپناتے ہوئے غزہ پر اسرائیلی حکومت کی فوج کے حملوں کو فوری طور پر بند کرنے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد پہنچانے کے لیے تمام دباؤ کو فعال کرنے کے لیے موثر اور مربوط اقدامات کیے جائیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس نازک اور فیصلہ کن لمحے میں اسرائیل کی جارح حکومت کو ایک واحد اور مضبوط پیغام دینا ضروری ہے کہ وہ غزہ اور مغربی کنارے میں جنگی جرائم کو فوری طور پر بند کرے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی پالیسی کے مطابق، بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے دائرے میں رہتے ہوئے فلسطینی عوام کے قبضے کے خلاف مزاحمت کے حق کو تسلیم کرنے کے ساتھ حماس کو ایک آزاد فلسطینی تنظیم کے طور پر دیکھتے ہوئے فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے استعمال کی بنیاد پر آزاد ایک فلسطینی ریاست کی تشکیل کہ جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو کی ضرورت پر زور دیتا ہے اور پناہ گزینوں کی واپسی کے لئے تمام ممالک اعر خاص طور پر اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس مسئلے کو اپنے فوری اور سنجیدہ ایجنڈے پر رکھتے ہوئے اسرائیلی حکومت کے جنگی مجرموں پر بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے، غاصب رجیم کو سامان اور توانائی کی برآمد بند کی جائے اور غزہ اور مغربی کنارے کے لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کم از کم اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے۔
آپ کا تبصرہ