19 نومبر، 2023، 1:55 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

امریکی پالیسیوں میں اسرائیل کی اہمیت، واشنگٹن کے فیصلوں میں صہیونی لابی کا نفوذ

امریکی پالیسیوں میں اسرائیل کی اہمیت، واشنگٹن کے فیصلوں میں صہیونی لابی کا نفوذ

صہیونی حکومت نے امریکی پالیسی میں اہم مقام حاصل کرتے ہوئے عالمی سطح پر سیاسی، اقتصادی اور دفاعی سرمایہ کاروں کا رخ اپنی طرف موڑا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: امریکی اور صہیونی حکام کے درمیان تعلقات کی جڑیں انیسویں صدی میں ملتی ہیں۔ سولہویں اور سترہویں صدی میں عیسائیوں کی برطانیہ سے امریکہ کی طرف ہجرت شروع ہوئی انہوں نے حضرت عیسی کے دوبارہ ظہور کے لئے بیت المقدس میں یہودیوں کی حکومت کی کوشش شروع کی جس سے امریکیوں اور یہودیوں کے درمیان رابطہ بڑھنا شروع ہوا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکہ میں صہیونی لابی بہت اثر رسوخ پیدا کرچکی تھی کہ براہ راست اقوام متحدہ کے فیصلوں اور اسرائیل کے لئے مالی امداد کے لئے اس وقت کے صدر ٹرومین پر دباو لگاتے تھے۔ اس کے بعد سے آج تک امریکی پالیسی میں صہیونی لابی اہم کردار ادا کررہی ہے اور مشرق وسطی کے بارے میں امریکی فیصلوں پر اثرانداز ہورہی ہے۔

اس تحریر میں وائٹ ہاوس کی خارجہ پالیسی میں اسرائیل کے کردار کے بارے میں تحقیق پیش کی جائے گی۔

امریکہ میں اثر و رسوخ رکھنے والی صہیونی لابی کی وجہ مشرق وسطی کے بارے میں امریکی پالیسی میں اسرائیل کو اہمیت حاصل ہوئی ہے۔ امریکہ اسرائیل کے دفاع کے لئے متحدہ عیسائیوں کی تنظیم جس کی سربراہی جان ہیگی کے ہاتھ میں ہے، آج امریکہ میں اسرائیل کی سب سے بڑی حامی تنظیم ہے۔ تقریبا 10 ملین افراد پر مشتمل اس عیسائی تنظیم کا ہدف سرزمین موعود پر یہودیوں کا تسلط قائم کرنا ہے تاکہ حضرت عیسی کے ظہور کا ماحول فراہم ہوجائے۔

ای پک تل ابیب کی دوسری بڑی حامی تنظیم ہے جس کے اراکین دونوں بڑی پارٹیوں ڈیموکریٹ اور ریپبلیکن میں موجود ہیں۔ اس گروہ کا دعوی ہے کہ ایک لاکھ سے زائد فعال ارکان ہیں جبکہ پورے امریکہ میں تیس لاکھ لوگ اس کے حامی ہیں۔ 2022 کے انتخابات میں ای پک نے 17 ملین ڈالر کی مالی مدد کے ذریعے کانگریس میں دونوں پارٹیوں کے اراکین کا ووٹ حاصل کیا تھا۔ 

جی سٹریٹ امریکہ میں صہیونیوں کی تیسری لابی ہے جس کے دونوں پارٹیوں کے اراکین کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔ امدادی تنظیم کے حلیے میں اس گروپ کا ہدف صہیونی حکومت کو مغربی ایشیا کی واحد جمہوریت ثابت کرنا ہے جس مغربی اقدار مثلا جمہوریت اور حقوق انسانی کا احترام کرتی ہے۔ جی سٹریٹ کا جانب تل ابیب اور واشنگٹن کے دائیں بازو کے سیاستدانوں کے خلاف شدید رویہ باعث ہے کہ فلسطین میں دو ریاست کے حامی امریکیوں میں اس تنظیم کے بارے میں نرم گوشہ پیدا ہوا ہے۔
یہ تینوں صہیونی لابیاں امریکہ کے سیاسی، اقتصادی، تعلیمی اور ثقافتی شعبوں میں اثر رسوخ رکھتی ہیں جس کی وجہ سے صہیونی حکومت کے مفادات کی بہتر حفاظت ممکن ہورہی ہے۔

"سب سے پہلے امریکہ" کے نعرے کی جڑیں عالمگیریت اور جمہوری تحریکوں کی مخالفت میں امریکہ کی قدامت پسند اور نو قدامت پسند تحریکوں کی استثنائی پالیسی میں پیوست ہیں۔ اس کے باوجود مشرق وسطی کے بارے میں امریکی پالیسی میں کبھی امریکی مفادات کو نہیں دیکھا گیا بلکہ ہمیشہ اسرائیلی مفادات کا خیال رکھا گیا ہے۔ امریکی کانگریس میں پاس ہونے والی قرار داد کے مطابق مشرق وسطی میں اسرائیلی دفاعی برتری کو کبھی خطرہ لاحق نہی ہونا چاہئے۔ تل ابیب کو امریکہ اور مشرق وسطی کے ممالک کے درمیان دفاعی معاہدوں میں اسرائیل کو ویٹو کا دیا گیا ہے۔ وائٹ ہاوس اور کانگریس میں اسرائیلی نفوذ کی وجہ سے ترکی، عرب امارات اور سعودی عرب جیسے تل ابیب یا امریکہ میں موجود صہیونی لابیوں کے ذریعے واشنگٹن کے ساتھ دفاعی معاہدے کرنے پر مجبور ہوئے ہیں جس میں صہیونی حکومت کی حفاظت کی بھی ضمانت دی گئی ہے۔

صہیونی حکومت کی تشکیل کے بعد 2023 تک امریکہ نے 158 ارب ڈالر سے زیادہ اسرائیل کی دفاعی مدد کی ہے تاکہ بحیرہ روم کی ساحل پر موجود اپنے مفادات کے محافظ کو مسلح کیا جاسکے۔ 7 اکتوبر کو حماس کے حملوں سے پہلے رواں سال اسرائیل امریکہ سے 8۔3 ارب ڈالر کی امداد حاصل کرچکا تھا۔ اتنی خطیر رقم ملنا دلیل ہے کہ صہیونی حکومت کو خطے میں اہمیت دی جارہی ہے۔ امریکی مبصرین کے مطابق امریکہ خطے میں اپنے مفادات کی حفاظت اور آبنائے ہرمز، آبنائے باب المندب اور نہر سوئز کے ذریعے تجارت کو محفوظ بنانے اور خطے اور بین الاقوامی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اسرائیل کو فوجی اڈے کی طرح استعمال کرنا چاہتا ہے اسی بنیاد پر جب 7 اکتوبر کو طوفان الاقصی میں جب اسرائیلی سلامتی پر کاری ضرب لگی تو امریکہ اور یورپی ممالک کے  بحری جہاز، جنگی طیارے اور دفاعی آلات حتی کہ فوجی مشیر فوری طور مقبوضہ فلسطین آئے۔ عوام اور متعدد حکومتوں کی مخالفت کے باوجود امریکہ اور بعض یورپی ممالک کی جانب سے اسرائیل کی مکمل حمایت ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیل کو خطے میں امریکہ کی نظر میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔

چھے سالوں کے بعد چینی صدر شی جن پنگ ایشیا اور اوقیانوس کے ممالک کی اقتصادی تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لئے امریکی شہر سان فرانسسکو گئے ہیں۔ مبصرین کے مطابق امریکہ اور چین کے درمیان رقابت شروع ہوگئی ہے۔ اگر امریکہ اور چین کے درمیان تائیوان، جنوبی چین کے سمندروں پر چینی تسلط، ایغور عوام کے حقوق، یورپ میں چینی کمپنیوں کے لئے مواقع جیسے امور پر اتفاق رائے نہ ہوسکا تو دونوں کے درمیان کشیدگی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ ذرائع کے مطابق امریکی صدر جوبائیڈن نے چینی ہم منصب سے درخواست کی ہے کہ مغربی ایشیا میں تعاون کا رشتہ بڑھانے کے لئے ایران پر اپنے اثر رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے تہران پر مشرق وسطی میں انتہائی قدم اٹھانے سے روکیں۔

طوفان الاقصی کے بعد امریکی توجہ مشرق وسطی پر زیادہ مرکوز ہوگئی ہے۔ اس کی وجہ سے چین کی اہمیت ایک ثالث کی حیثیت سے مزید بڑھ گئی ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے قیام کی کوششیں ماند پڑ گئی ہیں گویا امریکہ اور چین کے درمیان عالمی برتری حاصل کرنے کے لئے جاری رقابت میں مشرق وسطی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ اسرائیل اس وقت مغربی ممالک کے لئے واحد فوجی اڈے کی طرح ہے جس کے ذریعے وہ ایشیا کے مختلف خطوں میں اپنی برتری قائم رکھنے کے لئے اقدامات کرتے ہیں۔

سرد جنگ اور موجودہ زمانے میں صہیونی حکومت نے امریکی خارجہ پالیسی میں اہم مقام حاصل کرتے ہوئے امریکی سیاسی، اقتصادی اور دفاعی حمایت حاصل کی ہے۔ اسرائیل امریکی حکام کے لئے مغربی تہذیب کا مشرق میں واقع مرکز ہے جس کا مقصد واشنگٹن کے مفادات کی حفاظت اور مشرقی ممالک کو ترقی سے روکنا ہے۔ اسی لئے جوبائیڈن نے صہیونی صدر سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ اسرائیل کو وجود ضروری ہے اگر پہلے سے نہ ہوتا اب ہم اس کو ہر حال میں تشکیل دیتے۔

News ID 1920075

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha