مہر خبررساں ایجنسی_بین الاقوامی ڈیسک: غزہ پر صہیونی حکومت کی جارحیت کے 36 دن پورے ہورہے ہیں۔ اس دوران صہیونی حکومت کی وحشیانہ بمباری اور جارحانہ حملوں کی وجہ سے 11 ہزار سے زائد فلسطینی بے گناہ شہری شہید ہوچکے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔ اگرچہ بے گناہ لوگوں کا قتل عام صہیونی حکومت کی نظر کوئی اہمیت نہیں رکھتا لیکن تعجب مغربی ممالک کے رویے پر ہوتا ہے جو خود کو انسانی حقوق کا علمبردار کہلاتے ہیں۔
غزہ پر جارحیت کے لئے جددید ترین ہتھیاروں سے لیس ہونے کے باوجود صہیونی فورسز کو انتہائی نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک کی وسیع حمایت حاصل ہونے کے باوجود اسرائیل ان نقصانات سے نہیں بچ پایا ہے۔ مبصرین کے مطابق اسرائیل اپنے نقصانات کا اعداد و شمار دینے میں حقائق چھپارہا ہے۔ حقیقی اعداد و شمار اس سے پانچ گنا زیادہ ہیں۔
مہر نیوز کے نامہ نگار نے فلسطین کے تازہ ترین حالات کے بارے میں غزہ سے تعلق رکھنے والے صحافی محمد ابوطاقیہ سے گفتگو کی ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔
مہر نیوز؛ صہیونی حکومت مسلسل غزہ کے محاصرے اور زمینی حملے میں پیشقدمی کا دعوی کررہی ہے اس کی کیا حقیقت ہے؟
غزہ کے عوام 17 سالوں سے مکمل صہیونی محاصرے میں ہیں۔ البتہ یہ محاصرہ فوجی نہیں بلکہ دوسرے حوالے سے ہے۔ 2006 کے بعد سے اسرائیل نے غزہ کے عوام پر زندگی سخت کردی ہے۔ ان سختیوں کا فلسطینی عوام پر شدید اثر مرتب ہورہا ہے۔ اس علاقے میں 23 لاکھ شہری آباد ہیں لیکن تعلیم سے لے کر صحت اور زندگی کی ضروریات کے لئے صہیونی حکومت کے محتاج ہیں۔ اسرائیل غزہ کو اپنے اہداف تک پہنچنے میں بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے اسی لئے غزہ کے عوام کے عزم و حوصلے کو ختم کرنا چاہتا ہے۔
مہر نیوز؛ غزہ میں غذا، دوائی اور زندگی کی ضروریات کی کیا صورتحال ہے؟ سنا ہے غزہ میں بنیادی ضروریات زندگی کے حوالے سے بحران ہے؟
7 اکتوبر سے پہلے غزہ میں صحت کے امور میں 16 فیصد کمی پائی جاتی تھی لیکن اس کے بعد پورا نظام تباہ ہوگیا ہے۔ اب تک صہیونی حملوں میں 40 ہزار سے زائد لوگ شہید یا زخمی ہوگئے ہیں۔ دوائیوں کی اس قدر کمی ہے کہ ڈاکٹر ہسپتالوں میں بے ہوشی کے بغیر مریضوں کا آپریشن کرنے پر مجبور ہیں۔ صہیونی حکومت بیرونی دنیا سے بھی علاج و معالجے کے سامان پہنچانے سے روک رہی ہے۔ 7 اکتوبر کے بعد سے اب تک فقط 500 امدادی ٹرک غزہ میں پہنچ گئے ہیں جوکہ ضرورت سے بہت ہی کم ہے۔ کئی سالوں سے غزہ کی سرحدیں بند کردی گئی ہیں یہ صورتحال اسلامی ممالک کے لئے شرمناک ہے۔
مہر نیوز؛ سختیوں کے باوجود غزہ کے لوگ مقاومت کو جاری رکھیں گے؟ اسرائیل غزہ کے موجود حالات کی ذمہ داری حماس پر عائد کرنا چاہتا ہے؟
ہاں غزہ کے لوگ حماس کی حمایت کرتے ہیں۔ میں غزہ میں پیدا ہوکر غزہ میں ہی پلا بڑھا ہوں میرے رشتہ دار غزہ میں رہتے ہیں۔ غزہ کے لوگ اہل مقاومت ہیں البتہ طوفان الاقصی کے بعد ان کی مقاومت میرے لئے باعث حیرت ہے۔ اس طرح کا قتل عام کسی بھی انسان کے لئے قابل برداشت نہیں ہوتا۔ آپ تصور کریں ایک شخص جس نے اپنے پورے گھر والوں کو کھودیا ہے اور خود جب ملنے کے نیچے سے باہر آتا ہے تو سب سے پہلے یہی کہتا ہے کہ ہم مقاومت اور مسجد اقصی پر قربان ہوں گے۔ یہی جملے کافی ہے کہ مقاومت پوری طاقت کے ساتھ جاری رہے گی۔
یہ مسئلہ غزہ کے عوام کی ایمانی طاقت سے تعلق رکھتا ہے۔ غزہ میں معاشرتی جرائم نہیں ہیں کیونکہ یہاں کے لوگ اقدار کی پابندی کرتے ہیں۔ ہر سال ہزاروں افراد حافظ قرآن کے طور پر اپنا نام اندراج کراتے ہیں۔ غزہ کے عوام کے پاس مزاحمت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اسرائیل اپنی بقا کا حل تشدد اور فلسطینی عوام کے قتل کو سمجھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر بار ہسپتالوں پر بمباری کے بعد صہیونیوں کے جشن اور خوشی کی تصویریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ صیہونی حکومت کا حماس کے بہانے غزہ پر حملہ کرتا ہے میں آپ سے پوچھتا ہوں، کیا غرب اردن میں بھی حماس موجود ہے؟
7 اکتوبر کے بعد غرب اردن میں 160 سے زائد فلسطینی شہید اور 3000 سے زائد فلسطینیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اسرائیل کس بہانے سے 20 لاکھ سے زائد صہیونی آباد کاروں پر سرمایہ کاری کررہا ہے؟ کس بہانے سے مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر حملہ کرتا ہے؟ صہیونی حکومت اور مغربی ممالک نے طوفان الاقصی آپریشن کے بعد حماس کو بدنام کرنے کی کوشش کی حتی کہ اس گروہ کو داعش کا ہم پلّہ قرار دینے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ غزہ کے لوگ کبھی بھی اسرائیل کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔
مہر نیوز؛ غزہ میں داخل ہونے کی اسرائیلی کوششوں کا سناریو کیا ہوگا؟
اسرائیل نے 7 اکتوبر کے بعد غزہ میں زمینی کارروائی کا اعلان کیا ہے۔ لیکن وہ ہر روز مختلف بہانوں سے اسے ملتوی کرتا رہا ہے۔ صیہونی حکومت کے غزہ پر زمینی حملے شروع ہوئے 13 دن ہوچکے ہیں۔ اس کے بعد سے اب تک اپنے سینکڑوں فوجیوں ہلاکت کا اعتراف کیا ہے۔ البتہ یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ حکومت اپنے فوجیوں کی ہلاکتوں کے بارے میں جو اعداد و شمار بتاتی ہے وہ غلط ہیں۔ یہ صیہونی حکومت کی عادت ہے کہ ہمیشہ اپنی ہلاکتوں کو کم کرتی ہے اور سب سے کم اعداد و شمار بتاتی ہے۔ تحقیق کے مطابق رائے عامہ میں اپنی ساکھ بچانے کے لیے صیہونی حکومت ہمیشہ اپنی ہلاکتوں کی کمترین تعداد کا اعلان کرتی ہے۔ ان دنوں صہیونی حکومت کے فوجیوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
مثال کے طور پر حکومت نے حال ہی میں حماس کے ہاتھوں 90 فوجی ٹینکوں کے تباہ ہونے کا اعلان کیا ہے، اگر ہم ہر ٹینک کے اندر پانچ فوجیوں کو شمار کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ صہیونی حکومت ہلاکتوں کے بارے میں جو اعداد و شمار پیش کرتی ہے وہ غیر منطقی اور غلط ہے۔ دوسری جانب صیہونی حکومت کے پاس غزہ میں داخل ہونے کا کوئی خاص منصوبہ نہیں ہے اور حماس نے ابھی تک یہ نہیں کہا ہے کہ حکومت غزہ میں داخل نہیں ہو سکتی۔ صہیونی فوجی غزہ میں داخل ہو سکتے ہیں لیکن واپسی کے تین ہی طریقے ہیں یا تو وہ پکڑے جائیں گے، یا مارے جائیں گے یا زخمی ہوجائیں گے۔ صیہونی حکومت زمینی کارروائیوں میں کامیاب نہیں ہو گی۔ یعنی اگرچہ یہ اسرائیل زمینی کارروائیوں کا آغاز کرے گا لیکن اس کے خاتمے کا اعلان حماس کی طرف سے ہوگا۔
حماس ایک غیر مساوی جنگ میں کی حالت ہے۔ کیونکہ یہ ایک ایسی حکومت سے لڑ رہی ہے جس کی حمایت امریکہ کرتا ہے۔ لیکن حماس اور حکومت کے درمیان سب سے اہم فرق اس مزاحمتی گروپ کی دلیری اور ناقابل تسخیر جذبہ ہے۔ صیہونی حکام کو تمام خصوصی سہولیات میسر ہیں لیکن اعتقادی طور پر بہت کمزور ہیں۔ الاقصی طوفان آپریشن کے بعد غاصب حکومت کی فوج انتہائی غیر محفوظ ہے۔
اگرچہ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل نے زمینی کارروائی شروع کر دی ہے لیکن ہمیں ابھی تک غزہ کے رہائشی علاقوں میں کوئی کشیدگی نظر نہیں آرہی حماس نے اس کی اجازت نہیں دی ہے۔ لیکن جھڑپوں میں شدت آ گئی ہے، حالیہ ایام میں صیہونی حکومت کی طرف سے غزہ کے رہائشی علاقوں پر بمباری میں اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیل نے زمینی کارروائیوں میں کوئی نئی پیش رفت نہیں کی۔ اس سے اسرائیل کی انٹیلی جنس، فوج اور حکمت عملی کی ناکامی ظاہر ہوتی ہے۔
مہر نیوز؛ کیا اسرائیل غزہ کے شمالی حصے کو جنوبی حصے سے جدا کرنے میں کامیاب ہوا ہے؟
جی ہاں؛ لیکن ہم اس کو اسرائیل کی فتح قرار نہیں دے سکتے ہیں کیونکہ اسرائیل جس حصے پر کنٹرول کرنے کا دعوی کرتا ہے وہ سرحد سے سمندر تک تقریباً 6 کلومیٹر کے فاصلے پر محیط ہے۔ یہ حصہ غزہ کا تنگ ترین جغرافیائی حصہ سمجھا جاتا ہے۔
درحقیقت حالیہ جھڑپیں ایک ایسے مقام پر ہوئیں جو جغرافیائی طور پر غزہ میں مزاحمتی گروہ کے دفاع کا کمزور نقطہ تصور کیا جاتا ہے، یعنی صیہونی حکومت نے غزہ کے شمال مغربی حصے سے اپنے حملے شروع کر دیے ہیں۔ صہیونی حکومت آٹھ دن کے بعد ان حصوں میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئی جبکہ اسرائیل اس سے پہلے ایک گھنٹے کے اندر اندر ایسی کارروائی کر سکتا تھا۔ اسرائیل کو غزہ کے کسی بھی حصے میں بھاری جانی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے اور وہ ابھی تک ان حصوں پر مکمل کنٹرول نہیں کرسکا ہے، حتی کہ غزہ کے شمالی علاقوں میں بھی ہم نے قابض افواج کے انخلاء کا مشاہدہ کیا ہے۔
آپ کا تبصرہ