مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایرانی محکمہ انصاف ﴿عدلیہ﴾ کے میڈیا سینٹر نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ رواں سال جون میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے تعلقات عامہ نے صیہونی انٹیلی جنس سروس سے تعلق رکھنے والے بلوائیوں اور اباشوں کے نیٹ ورک کی گرفتاری کا اعلان کیا تھا۔
تفصیلات کے مطابق یہ نیٹ ورک صہیونی انٹیلی جنس سروس سے حاصل ہونے والی ہدایات کے تحت نجی اور سرکاری اموال کی چوری، ڈاکہ زنی اور املاک کی تخریب میں ملوث تھا۔ ساتھ ہی اپنے اوباش کارندوں اور غنڈوں کے نیٹ ورک کے ذریعے اغوا اور لوگوں سے زبردستی جعلی اعترافات بھی لے رہے تھے۔ آخر کار اس نیٹ ورک کے ارکان پاسداران انقلاب اسلامی کی خفیہ سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔
مذکورہ گینگ کے ارکان صہیونی انٹیلی جنس افسران سے ہدایات لے کر جدید ہتھیاروں سے مسلح ہو کر اغوا کی وارداتیں کرتے تھے اور ڈیجیٹل کرنسی میں اپنی اجرت وصول کرتے تھے۔
مقدمے کے مندرجات کے مطابق ملزمان غنڈہ گردی کا ریکارڈ رکھتے تھے اور گینگ کے اصلی ارکان کو معلوم تھا کہ انہیں واردات کرنے کے لیے ملک سے باہر کے لوگوں سے احکامات مل رہے تھے اور انہیں اس بات کا بھی علم تھا کہ وہ رقم وصولی کے بدلے ملکی سلامتی کو درہم برہم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
اسی طرح ملزمان سیکورٹی مخالف اقدامات کی نوعیت اور رفت و آمد، مواصلات اور سیکورٹی احتیاطوں پر عمل پیرا ہونے کے حوالے سے بیرون ملک لوگوں سے ہدایات حاصل کرنے سے پوری طرح واقف تھے۔
دستاویزی شواہد اور ملزمان کے اعترافی بیانات کے مطابق اس ٹیم کے اصلی کارندے غنڈوں اور اوباشوں پر مشتمل تھے جو صہیونی خفیہ سروس کی 2 آپریشنل ٹیموں کی شکل میں کام کر رہے تھے جنہیں ملزم حسین اردوخان زادہ المعروف زکریا اور ملزم میلاد اشرفی لیڈ کر رہے تھے۔
دونوں ٹیموں میں موساد کا افسر سیروس نامی شخص تھا جبکہ ٹیم کے دوسرے نمبر کے ارکان اسے سیاوش کے نام سے جانتے تھے۔
گینگ کے کام کا آغاز اور صہیونی انٹیلی جنس سروس سے رابطے حسین اردوخانزادہ کے ذریعے انجام پائے۔ یہ شخص ترکی سے یونان کے لئے انسانی اسمگلنگ کے جرم میں 2014 سے 2017 تک 3 سال تک یونانی جیل میں رکھا گیا تھا، اس دوران جیل میں اس کی ملاقات اوزان نامی شخص سے ہوتی ہے جسے بھی اسی الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
اردو خانزادہ نے ترکی کے شہر استنبول میں انسانی سمگلنگ کرنے کے لیے اوزان کی تجویز سے اتفاق کیا اور پھر اسے ایک ایسے گھر میں ٹھہرایا گیا جہاں انسانی سمگلر موجود تھے۔
وہاں ملزم کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوتی ہے جس کا نام "آریا" ہوتا ہے جسے کیپٹن کے طور پر متعارف کروایا جاتا ہے۔ اس دوران آریا ملزم کو اچھے پیسوں کے ساتھ اچھی نوکری کی پیشکش کرتا ہے۔
اوزان، اردوخانزادہ کو بتاتا ہے کہ اس کام میں بلی کو مارنے سے لے کر انسان کے قتل تک ہوسکتا ہے اور اسے پیشکش دیتا ہے کہ اگر ملزم اس کام کو قبول کرتا ہے تو وہ اس کا نمبر متعلقہ کام کروانے والے کو دے گا جبکہ ملزم بھی یہ پیشکش قبول کرلیتا ہے۔
پھر کچھ عرصے کے بعد ملزم آریا سے الگ ہو جاتا ہے اور اس کا فون نمبر لے لیتا ہے۔ اردو خانزادہ ترکیہ میں اپنے قیام کے اختتام تک اوزان کے ساتھ کام جاری رکھتا ہے اور اوزان اس کے لیے تہران کا ٹکٹ فراہم کر کے دیتا ہے۔
جب ملزم ترکیہ میں اپنا قیام مکمل کر کے ایران واپس آیا تو ایک شخص نے غیر ملکی فون نمبر کے ذریعے واٹس ایپ پر اس کے ساتھ رابطہ کیا اور اپنا تعارف سیروس ﴿موساد کا افسر) کے طور پر کروایا اور کہا کہ اسے یہ نمبر آریا سے ملا ہے۔ اس گفتگو میں سیروس کہتا ہے کہ "کرما" نامی شخص اس سے بات کرنا چاہتا ہے۔
اس کال میں کرما اس سے بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آریا نے تمہاری تصدیق کی ہے اور سیروس تمہیں کام سمجھا دے گا۔
بات چیت ختم کرنے کے بعد ملزم نے سیروس کے مشورے پر مزید کچھ دوسرے لوگوں کو کام کرنے کے لیے متعارف کرایا۔
ملزمان نے موساد کے ساتھ تعاون کے لیے ہتھیاروں اور مطلوبہ آلات کی خریداری سمیت اپنی دیگر واردات کرنے کے لیے کئی بار ڈیجیٹل والیٹ کے ذریعے ڈیجیٹل کرنسی حاصل کی۔
ملزمان جتنا عرصہ موساد کے انٹیلی جنس افسر کے ساتھ تعاون کرتے رہے اس دوران انہوں نے اس کے احکامات پر عمل کیا اور ہر حکم کی تعمیل کے بعد رقم وصول کی۔
صہیونی جاسوسی ایجنسی کے ملزموں کے ساتھ بات چیت اور رابطے کا طریقہ جیسے مواصلاتی اشیاء کی خریداری میں سیکورٹی سفارشات، واردات کے بعد اس میں استعمال ہونے والی چیزوں کو تلف کرنا، سی سی ٹی وی کیمروں کی نظروں سے بچنا، متعدد گاڑیوں کے ساتھ چلنا وغیرہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ کام کے آغاز سے ہی ان کا مشن سیکورٹی اور حساس نوعیت رکھتا تھا اور شروع سے ہی موساد کے ایجنٹوں کی طرف سے
واردات کرنے والے کارندوں کو سیکیورٹی نکات کی تربیت دی جار رہی تھی۔
سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانا، ٹارگٹ کے گھروں کی ویڈیوز اور تصاویر لینا، ہتھیاروں کی خرید و فروخت اور اغوا ان کارروائیوں اور واردات میں شامل ہیں جو ملزمان نے موساد کے ایجنٹ کے حکم پر انجام دیں اور ان کے بدلے اچھی خاصی رقم وصول کی۔
مذکورہ گینگ کے دوسرے گروپ کا سرغنہ ملزم میلاد اشرفی انسٹاگرام کے ذریعے آزیتا نامی خاتون سے ملا۔
ایک دوسرے سے واقفیت حاصل ہونے کے کچھ عرصے اور بعض کام انجام دینے کے بعد آزیتا نے میلاد اشرفی کا سیاوش نامی شخص (موساد کا ایجنٹ جو کہ پہلی ٹیم کا سیروس ہی تھا) سے تعارف کرایا جو سویڈن میں مقیم ہے۔
سیاوش نے ملزم کے لیے مناسب نوکری ڈھونڈنے کے بہانے اس سے رابطہ کیا اور اسے ایران میں جاسوسی سروس کی کارروائیوں کے لیے ایک موزوں فرد کے طور پر دریافت کیا۔
پہلے پہل سیاوش نے ملزم اشرفی سے وال چاکنگ، نعرے لکھنے اور ٹائر جلانے جیسی وارداتیں کرنے کا کہا اور پھر اسے مزید اہم منصوبوں کے بارے میں بتانے لگا اور اس سے کہا کہ مزید قابل اعتماد لوگوں کو گروپ میں متعارف کرائے۔
دوسری ٹیم کے ارکان نے بھی پہلی ٹیم کی طرح موساد کے ایجنٹ کے احکامات پر عمل کیا اور مختلف کاموں کے عوض رقم وصول کی۔
ملزمان کی گرفتاری، مقدمے کی قانونی کاروائی عمل میں آنے اور ملزمان کا ابتدائی فیصلہ جاری ہونے کے بعد کیس کو اپیل کے لیے سپریم کورٹ بھیج دیا گیا۔
کیس کی تحقیقات سپریم کورٹ کی 9ویں برانچ میں ہوئیں اور بالآخر 7 ملزمان کے لیے حتمی فیصلہ جاری کر دیا گیا۔
سپریم کورٹ کے جاری کردہ حتمی فیصلے کے مطابق مقدمے کی پہلی سے چوتھی لائن کے ملزمان حسین اردوخانزادہ، شاہین ایمانی محمود آباد، میلاد اشرفی آتباتان اور منوچہر شاہبندی بجندی کو صہیونی انٹیلی جنس کے ساتھ رابطے اور تعاون اور اغوا کاری کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی۔
تین دیگر ملزمان کو ملک کی سلامتی کے خلاف مجرمانہ اقدامات، اغوا میں سہولت کاری اور مدد کرنے اور ہتھیار رکھنے جیسے جرائم کی بنیاد پر 5 سے 10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
اسی بنا پر آج صبح صہیونی انٹیلی جنس سروس سے تعلق رکھنے والے غنڈوں اور اوباشوں کے گینگ کے 4 اصلی ارکان کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
آپ کا تبصرہ