مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،رہبر معظم انقلاب اسلامی اور ایران کی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر انچیف حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی موجودگی میں ڈیفنس یونیورسٹیوں کی مشترکہ پاسنگ آؤٹ پریڈ کی تقریب پیر کے روز تہران کی امام حسن مجتبی علیہ السلام آفیسرز اکادمی میں منعقد ہوئی۔
پاسنگ آوٹ پریڈ کی تقریب سے ایک اہم خطاب میں حالیہ واقعات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں صاف کہتا ہوں کہ یہ واقعات امریکہ، صیہونی حکومت اور ان کے پیروکاروں کے تیار کردہ ہیں۔ ان کا اصل مسئلہ ایک مضبوط اور خود مختار ایران اور ملک کی ترقی کا ہے۔ ایرانی قوم ان واقعات میں کافی مضبوط ظاہر ہوئی اور مستقبل میں جہاں بھی ضرورت پڑی بہادری کے ساتھ میدان میں اترے گی۔
رہبر معظم نے 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی موت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے نے ہمیں گہرا دکھ پہنچایا لیکن بغیر تحقیق کے ردعمل، سڑکوں پر آنا، ہنگامہ آرائی اور لوگوں کے لئے بد امنی اور عدم تحفظ پیدا کرنا اور قرآن، مسجد، حجاب، بینک اور عام لوگوں کی گاڑیوں پر حملہ کرنا معمول کی بات نہیں تھی بلکہ اس کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
حالیہ فسادات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند دنوں کے واقعات میں سب سے بڑھ کر ملک کے قانون نافذ کرنے والے ادارے پر ظلم ہوا، بسیج پر ظلم ہوا اور ایرانی قوم پر ظلم ہوا۔ انہوں نے ظلم کیا۔ بلاشبہ قوم اس واقعے میں بھی دیگر واقعات کی طرح مضبوط ظاہر ہوئی، مکمل مضبوط، ہمیشہ کی طرح، ماضی کی طرح۔ مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ مستقبل میں جہاں بھی دشمن فساد برپا کرنا چاہیں گے، وہ جو سب سے زیادہ سینہ سپر ہوں گے ایران کے بہادر اور وفادار عوام ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہاں ایرانی قوم مظلوم ہے، لیکن قوی اور مضبوط ہے، امیر المومنین کی طرح، اپنے آقا مولائے متقیان علی علیہ السلام کی طرح کہ جو مضبوط اور قوی بھی تھے، سب سے زیادہ قوی تھے اور سب سے زیادہ مظلوم بھی تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ان فسادات کی منصوبہ بندی کی گئی تھی مزید کہا کہ اگر یہ نوجوان لڑکی نہ ہوتی تو وہ اس سال مہر کی پہلی تاریخ ﴿۲۳ ستمبر﴾ کو ملک میں عدم تحفظ اور فساد برپا کرنے کا ایک اور بہانہ پیدا کرتے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ملک کی بعض سیاسی شخصیات کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ یہ خلفشار اور عدم تحفظ امریکہ اور غاصب اور جعلی صیہونی حکومت کے تیار کردہ تھے اور ان کے تنخواہ لینے والوں اور بیرون ملک بعض غدار ایرانیوں نے ان کی مدد کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ کچھ لوگ اس بات کے حوالے سے کہ اگر کہا جائے کہ فلاں واقعہ یا کام دشمن کا تیار کردہ منصوبہ تھا، حساس ہیں اور امریکی جاسوسی ادارے اور صہیونیوں کا دفاع کرنے کے لئے سینہ سپر ہوجاتے ہیں اور مختلف مغالطہ آمیز تجزیوں اور لفاظیوں کو بھی استعمال کرتے ہیں تاکہ کہہ سکیں کہ یہ غیر ملکیوں کا کام نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہ کہ دنیا میں بہت سے فسادات ہوتے ہیں اور یورپ بالخصوص فرانس اور پیرس میں ہر کچھ عرصے میں فسادات ہوتے رہتے ہیں لیکن کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ امریکہ کے صدر اور ایوان نمائندگان نے فسادیوں کی حمایت کی اور بیان دیا؟ کیا ایسا کوئی سابقہ ہے کہ پیغامات بھیجیں اور کہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں؟ کیا ایسی کوئی تاریخ ہے کہ جہاں امریکی سرمایہ داری سے وابستہ ذرائع ابلاغ اور سعودیوں سمیت خطے کی کچھ حکومتوں کی طرح ان کے کرائے کے آلہ کاروں نے ان ممالک میں فسادیوں اور بلوائیوں کی حمایت کی ہو؟ اور کیا ایسی کوئی تاریخ ہے کہ امریکیوں نے اعلان کیا ہو کہ ہم فسادیوں کو کچھ انٹرنیٹ ہارڈویئر یا سافٹ ویئر فراہم کریں گے تاکہ وہ آسانی سے ایک دوسرے سے رابطہ قائم کر سکیں؟
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا کہ تاہم اس طرح کی حمایت ایران میں کئی بار ہو چکی ہے۔ تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو غیر ملکی ہاتھ نظر نہیں آتا اور کیسے ایک ذہین شخص کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ان واقعات کے پیچھے دوسروں کے ہاتھ ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے نوجوان لڑکی مہسا امینی کی موت پر امریکیوں کے افسوس کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ مہم جوئی اور حادثات ایجاد کرنے کے لئے اپنے ہاتھ بہانہ لگنے پر خوش ہیں جبکہ ملک کے تینوں اداروں کے سربراہان نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا اور عدلیہ نے وعدہ دیا ہے کہ واقعے کو آخر تک لے کر جائے گی تاکہ معلوم ہوسکے کہ کوئی قصوروار ہے یا نہیں اور یہ قصور وار کون ہے؟ تحقیق اسی کو کہتے ہیں، اب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک خدمتگزار ادارہ اس بابت کہ ممکنہ طور پر کوئی خطا واقع ہوئی ہو، مورد الزام ٹہرے۔ اس کام کے پیچھے کوئی منطق نہیں اور اس کام کا سوائے جاسوسی اداروں اور عناد سے بھرے غیر ملکی پالیسی سازوں کے کوئی دوسرا عامل نہیں ہے۔
رہبر معظم نے ملک میں افراتفری اور عدم تحفظ پیدا کرنے کے لیے بیرونی حکومتوں کے محرکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ [غیر ملکی حکومتیں] ایک ایسے ملک کو برداشت نہیں کر سکتے جو ہمہ جہت طاقت کی طرف بڑھ رہا ہو۔ ایرانیوں کی ترقی کو روکنے کے لیے انہوں نے یونیورسٹیوں کو بند کرنے اور سڑکوں کو غیر محفوظ بنانے اور ملک کے شمال مغرب اور جنوب مشرق میں حکام کو نئے مسائل میں ملوث کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ دشمن ملک کے شمال مغرب اور جنوب مشرق کے بارے میں اپنے حساب کتاب میں غلط ہے فرمایا کہ دشمن افراتفری پھیلانا اور ملک کی سلامتی کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں بلوچ قوم کے درمیان زندگی گزار چکا ہوں اور وہ اسلامی جمہوریہ کے ساتھ گہرے وفادار ہیں۔ کرد قوم بھی سب سے ترقی یافتہ ایرانی عوام میں سے ہیں اور اپنے وطن، اسلام اور نظام کو پسند کرتے ہیں، اس لیے ان کا منصوبہ کامیاب نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ دشمن کے منصوبے اور اقدامات ان کے باطن کو ظاہر کرتے ہیں۔ وہی دشمن کہ جو اپنے ڈپلومیٹک اظہارات میں کہتا ہے کہ ہم ایران پر حملہ کرنے، وہاں کا نظام بدلنے اور دشمنی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے، ایک ایسے باطن کا مالک ہے اور دنگے و فسادات کروانے کی سازش، ملک کا امن و سلامتی نابود کرنے اور ان لوگوں کے جذبات بھڑکانے کے درپے ہے کہ جو ممکن ہے بعض ہیجانات سے برانگیخہ ہوجائیں۔
رہبر معظم نے مزید فرمایا کہ امریکہ نہ صرف اسلامی جمہوریہ بلکہ ایک مضبوط اور خود مختار ایران کے خلاف بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ پہلوی دور کے ایران کے خواہاں ہیں کہ ایک دودھ دینے والی گائے کی طرح ان کے احکامات مانتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ واقعات کے پیچھے یہ دھونس دکھانے والے ہیں اور جھگڑا ایک نوجوان لڑکی کی ہلاکت پر یا حجاب یا بد حجاب پر نہیں ہے۔ بہت سے ایسے لوگ جو مکمل حجاب نہیں کرتے اسلامی جمہوریہ کے پرجوش حامیوں میں سے ہیں اور مختلف تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔ جھگڑا اسلامی ایران کی خودمختاری، ایستادگی، تقویت اور اقتدار و قدرت پر ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کچھ نکات بیان کئے اور کہا کہ یہ لوگ جو سڑکوں پر ہنگامہ آرائی اور تخریبی کاروائیاں کر رہے ہیں سب کا ایک حکم نہیں ہے، بعض ایسے جوان اور نوجوان ہیں کہ جو انٹرنیٹ پر ایک پروگرام دیکھ کر پیدا ہونے والے ہیجان کے زیرِ اثر سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ ایسے افراد کو ایک تنبیہ سے متوجہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ غلطی کر رہے ہیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ مجموعی طور پر وہ تمام لوگ جو سڑکوں پر نکل آئے ہیں ایرانی قوم اور مومن و غیرتمند جوانوں کے مقابلے میں بہت ہی کم تعداد میں ہیں۔ البتہ سڑکوں پر نکلنے والے ان لوگوں میں بعض ان عناصر کے بقایاجات میں سے ہیں جنہوں نے اسلامی جمہوریہ سے چوٹ کھائی ہے جیسے کہ منافقین، علیحدگی پسند، شہنشاہیت پسند اور نفرت انگیز ساواکی اہلکاروں کے خاندان۔ لازم ہے کہ عدلیہ ان کی توڑ پھوڑ اور سڑکوں کی سلامتی کو نقصان پہنچانے میں شرکت کے تناسب سے ان کے لئے سزا کا تعین کرے اور انہیں کیفر کردار تک پہنچائے۔
آپ کا تبصرہ