مہر خبررساں ایجنسی نے النشرہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ سعودی عرب کے سابق انٹیلیجنس کے سربراہ شہزادہ ترکی الفیصل نے امریکی صدر باراک اوبامہ کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب ہر معاملے میں امریکہ کا اتحادی رہا ہے افغانستان اورعراق کی جنگوں میں امریکہ کو بھر پور تعاون فراہم کیا لیکن افسوس ہے کہ آج امریکہ سعودی عرب کو عراق، شام اور یمن میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور دہشت گردی پھیلانے کا ذمہ دار قراردے رہا ہے۔ مشرق وسطی میں سعودی عرب امریکہ کا اہم اتحاد ملک ہے جس نے اب امریکہ کے افغانستان اورعراق میں ہونے والے خوفناک جرائم اور مسلمانون کے قتل عام کا اعتراف کیا ہے لیکن یہ اعتراف اس وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان بعض اہم معمالات پر معمولی سی کشیدگی چل رہی ہے کیونکہ سعودی عرب نے ایران اور گروپ 1+5 کے درمیان مذاکرات کو ناکام بنانے کی بڑي تلاش و کوشش کی اور اس تلاش و کوشش میں سعودی عرب کو اسرائیل کی پشتپناہی بھی حاصل رہی لیکن امریکہ اور گروپ 1+5 نے سعودی عرب اور اسرائیل کی اس بات کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور انھوں نے مذاکرات کو منطقی انجام تک پہنچا دیا اور ایران پر عائد پابندیاں ختم کردیں جس کے بعد سعودی عرب آگ بگولہ ہوگیا اور اس نے مختلف بہانے بنا کر ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کردیئے اور حج کے موسم مين بڑے پیمانے پر ایرانی حجاج کا قتل عام کیا حتی حجاج کرام کو ایک گھونٹ پٹانی تک فراہم نہیں کیا۔
ادھر امریکی صدر باراک اوبامہ نے سعودی عرب پر زوردیا ہے کہ وہ علاقہ میں کشیدگی بڑھانے کے بجائے کشیدگی ختم کرے جس پر سعودی عرب کے ابق انٹیلیجنس سربراہ نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے تمام جرائم امریکی کے اشارے پر کئے ہیں اور آج امریکہ ہمیں نصیحت کررہا ہے۔ عرب ذرائع کے مطابق امریکہ کو سعودی عرب سمیت کسی بھی مسلم ملک سے کوئی ذاتی ہمدردی نہیں بلکہ وہ اپنے مفادات کو پایہ تکمیل تک پہچانے کے لئے سعودی عرب سے استفادہ کررہا ہے سعودی رعب نے امریکی جرائم میں شرکت کرکے مسلمانوں کے ساتھ بہت بڑی غداری کی ہے جس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑےگا۔ ترکی الفیصل نے کہا ہے کہ سعودی عرب امریکہ کے ساتھ اپنے گہرے روابط برقرار رکھےگاکیونکہ امریکہ امریکہ کو سعودی عرب اپنا سرپرست اور آقا سمجھتا ہے جس نے آل سعود کی حکومت کو بچا رکھا ہے۔
آپ کا تبصرہ