6 جنوری، 2009، 11:09 AM

علمدار کربلا

حضرت ابوالفضل العباس باب الحوائج، قمرِ بنی ہاشم، شہنشاہِ وفااورعلمدار کربلا ہیں

حضرت ابوالفضل العباس باب الحوائج، قمرِ بنی ہاشم، شہنشاہِ وفااورعلمدار کربلا ہیں

حضرت علی (ع) نے اپنے پروردگار سے دعاکی ، پروردگار! مجھے ایک ایسا فرزندعطا فرما جو اسلام کی بقاء کے لئے کربلا کے خونیں معرکہ میں میرے فرزند حسین (ع) کی نصرت و مدد کرے۔

 

مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ  حضرت علی (ع) نے اپنے پروردگار سے دعاکی ،  پروردگار! مجھے ایک ایسا فرزندعطا فرما  جو اسلام کی بقاء کے لئے کربلا کے خونیں معرکہ میں میرے فرزند حسین (ع) کی نصرت و مدد کرے۔



عباس بن علی تاریخ ولادت 4 شعبان، 26 ہجری
القاب : افضل الشہدا ء،باب الحوائج،قمرِ بنی ھاشم،شہنشاہِ وفا،،علمدار،غازی،سقائے سکینہ
کنیت : ابوالفضل
والد : علی ابن ابی طالب
والدہ : فاطمہ کلابیہ علیہا السلام بنت ام البنین
تاریخ شہادت :  10 محرم، 61 ہجری

مقام شہادت : کربلائے معلی
حضرت عباس علیہ السلام حضرت علی علیہ السلام کے فرزند تھے۔ آپ کی والدہ کا نام ام البنین تھا جن کا تعلق عرب کے ایک بہادر قبیلے سے تھا۔ حضرت عباس اپنی بہادری اور شیر دلی کی وجہ سے بہت مشہور ہوئے۔ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ان کی وفاداری واقعہ کربلا کے بعد ایک ضرب المثل بن گئی۔ وہ شہنشاہِ وفا کے طور پر مشہور ہیں۔

ولادت با سعادت

حضرت عباس علیہ السلام چار شعبان المعظم 26ھ کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے اس وقت تک آنکھ نہیں کھولی جب تک ان کے بھائی امام حسین علیہ السلام نے انھیں اپنے ہاتھوں میں نہیں لیا۔ بچپن ہی سے انھیں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ بہت محبت تھی۔ حضرت علی علیہ السلام نے اس عظیم الشان بچے کا نام عباس رکھا۔ روایت میں ہے کہ حضرت عباس علیہ السلام کی پیدائش کا مقصد ہی امام حسین علیہ السلام کی مدد اور نصرت تھا اور اھلِ بیت علیہم السلام کو شروع سے واقعہ کربلا اور اس میں حضرت عباس علیہ السلام کے کردار کا علم تھاحضرت علی ابن ابی طالب (ع) نے اپنے بھائی عقیل ابن ابی طالب کے مشورے سے جوانساب کے ماہر تھے ایک متقی اور بہادر قبیلے کی خاتون فاطمۂ کلابیہ سے عقد کیا اور اپنے پروردگار سے دعا کی کہ پروردگار! مجھے ایک ایسا فرزندعطا فرما  جو اسلام کی بقاء کے لئے کربلا کے خونیں معرکہ میں امام حسین (ع) کی نصرت و مدد کرے چنانچہ اللہ نے فاطمۂ کلابیہ کے بطن سے کہ جنہیں حضرت علی علیہ السلام نے ام البنین کا خطاب عطا کیا تھا ، چار بیٹے امام علی کو عطا کردئے اور ان سب کی شجاعت و دلیری زباں زد خاص و عام تھی اور سبھی نے میدان کربلا میں نصرت اسلام کا حق ادا کیااور شہید ہوئے لیکن عباس (ع) ان سب میں ممتاز اور نمایاں تھے کیونکہ خود حضرت علی علیہ السلام نے ان کی ایک خاص نہج پر پرورش کی تھی ۔

واقعہ کربلا اور حضرت عباس علیہ السلام
واقعہ کربلا کے وقت حضرت عباس علیہ السلام کی عمر تقریباً 33 سال کی تھی۔ امام حسین علیہ السلام نے آپ کو لشکر حق کا علمبردار قراردیا۔ امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد 72 یازیادہ سے زیادہ سو افراد پر مشتمل تھی اور لشکر یزیدی کی تعداد تیس ہزارسے زیادہ تھی مگر حضرت عباس علیہ السلام کی ہیبت و دہشت لشکر ابن زياد پر چھائی ہوئی تھی ۔ کربلامیں کئی ایسے مواقع آئے جب حضرت عباس علیہ السلام جنگ کا رخ بدل سکتے تھے لیکن امام وقت نے انھیں لڑنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ اس جنگ کا مقصد دنیاوی لحاظ سے جیتنا نہیں تھا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام حضرت ابوالفضل العباس کی عظمت و جلالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے : ”چچا عباس کامل بصیرت کے حامل تھے وہ بڑے ہی مدبر و دور اندیش تھے انہوں نے حق کی راہ میں بھائی کا ساتھ دیا اور جہاد میں مشغول رہے یہاں تک کہ درجۂ شہادت پرفائز ہوگئے آپ نےبڑ اہی کامیاب امتحان دیا اور بہترین عنوان سے اپناحق ادا کر گئے“ ۔

شہادت
10
محرم کو امام حسین علیہ السلام نے حضرت عباس(ع) کو پیاسے بچوں خصوصاً اپنی چار سالہ بیٹی سکینہ بنت الحسین کے لئے پانی لانے کا حکم دیا مگر ان کو صرف نیزہ اور علم ساتھ رکھنے کا حکم دیا۔ اس کوشش میں انھوں نے اپنے دونوں ہاتھ کٹوا دیئے اور شہادت پائی۔ اس دوران ان کو پانی پینے کا بھی موقع ملا مگر تین دن کے بھوکے پیاسے شیر نے گوارا نہیں کیا کہ وہ تو پانی پی لیں اور خاندا نِ رسالت پیاسا رہے۔ شہادت کے بعد جیسے باقی شہداء کے ساتھ سلوک ہوا ویسے ہی حضرت ابوالفضل العباس کے ساتھ ہوا۔ ان کا سر کاٹ کر نیزہ پر بلندکیا گیا اور جسمِ مبارک کو گھوڑوں کے سموں سے پامال کیا گیا۔ ان کا روضہ اقدس عراق کے شہر کربلا میں ہے جہاں پہلے ان کا جسم دفن کیا گیا اور بعد میں شام سے واپس لا کر ان کا سر دفنایا گیا۔

 

News ID 812637

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha