22 نومبر، 2025، 5:13 PM

مہر خبررساں ایجنسی کی خصوصی رپورٹ

صہیونی حکومت کو درپیش انسانی بحران، دو سال میں تقریبا 20 لاکھ اسرائیلی فرار

صہیونی حکومت کو درپیش انسانی بحران، دو سال میں تقریبا 20 لاکھ اسرائیلی فرار

مسلسل جنگ اور بحرانوں کی وجہ سے تقریبا 20 لاکھ یہودی آبادکار آبائی ممالک واپس چلے گئے ہیں جس کی وجہ سے اسرائیل کو شدید انسانی بحران کا سامنا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک:
مقبوضہ فلسطین میں بسنے والے صہیونیوں کی بڑے پیمانے پر آبائی ممالک روانگی نے اسرائیل کے سیاسی و معاشی مستقبل پر گہرے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ اسرائیلی سینٹرل بیورو آف اسٹیٹکس کے مطابق اکتوبر 2023 سے ستمبر 2025 کے درمیان 1,80,000 سے زائد صہیونی ہمیشہ کے لیے اسرائیل چھوڑ چکے ہیں، جو گزشتہ دو برس کی نسبت 45 فیصد اضافہ ہے۔ ان میں سے 33 فیصد امریکہ منتقل ہوئے۔ اعداد و شمار کے مطابق فرار ہونے والوں میں 40 فیصد سے زائد 20–30 برس کے نوجوان اور 53 فیصد اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 81 فیصد افراد کی عمر 49 سال سے کم ہے جبکہ 27 فیصد بچے بھی والدین کے ساتھ اسرائیل چھوڑ رہے ہیں۔

جغرافیائی اعتبار سے 54 فیصد تل ابیب و مرکز سے، 12 فیصد حیفا، 11 فیصد جنوبی علاقوں اور قدس سے جبکہ 10 فیصد شمالی اسرائیل سے روانہ ہوئے۔ حتی کہ 3 فیصد مغربی کنارے کے آبادکار بھی نقل مکانی کرچکے ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ رحجان اسرائیل میں گہرے سکیورٹی، معاشی اور سماجی عدم استحکام کی نشاندہی کرتا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق 1990 سے 2017 تک 5.75 لاکھ اور 2012 سے اب تک 6.84 لاکھ افراد اسرائیل چھوڑ چکے، مگر موجودہ دو سالہ دور میں نقل مکانی کی رفتار نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نوجوان اور ہنرمند طبقے کی اس بڑے پیمانے پر اسرائیل سے روانگی نے صہیونی حکومت کو ایک نئے بحران کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

ہجرت کے اہم عوامل اور وجوہات

صہیونی آبادی کی بیرون ملک ہجرت کی بنیادی وجوہات کو تین بڑے حصّوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

1. عسکری عدم تحفظ اور بیرونی خطرات

جون 2025 میں ایران کی فوجی کارروائیوں نے اسرائیلی عوام کے اپنے دفاعی نظاموں پر اعتماد کو شدید متاثر کیا۔ غزہ اور لبنان سے ہونے والے میزائل حملوں، اور آئرن ڈوم کے محدود کارکردگی نے خوف اور بے یقینی میں مزید اضافہ کر دیا۔ اسی وجہ سے بہت سے لوگوں نے اسرائیل چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

2. داخلی بدامنی اور سماجی بحران

2023 کی عدالتی اصلاحات، ملک گیر احتجاجات اور مذہبی حریدی گروہوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ نے اسرائیلی معاشرے میں سیکولر اور مذہبی طبقے کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کر دیا ہے۔
سیکولر اسکولوں میں داخلوں میں کمی اور تعلیمی معیار سے عدم اطمینان بھی کئی خاندانوں کی ہجرت کی اہم وجہ بن گیا ہے۔

3. معاشی مشکلات

2023 سے 2025 تک جاری رہنے والی جنگوں نے مجموعی طور پر 66 ارب ڈالر کا براہ راست معاشی نقصان پہنچایا اور 60 ہزار چھوٹی کمپنیاں دیوالیہ ہوگئیں۔ بجٹ خسارہ بڑھ کر قومی آمدنی کے 6 فیصد تک پہنچ گیا اور غیر ملکی امداد پر انحصار میں اضافہ ہوا۔ روزگار کے مواقع کم ہونے اور معاشی کساد بازاری کے خدشے نے اعلی تعلیم یافتہ اور ہنرمند افراد کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔

صہیونی آبادکاروں کی ترجیحی منزلیں

صہیونی شہری زیادہ تر یورپ اور امریکہ کا رخ کر رہے ہیں۔ امریکہ جہاں پہلے سے 6 سے 7.5 لاکھ اسرائیلی موجود ہیں، تعلیم یافتہ افراد اور پیشہ ور خاندانوں کے لیے سب سے پرکشش ملک ہے۔ یونان نئے ورک ویزا اسکیم اور دو سالہ رہائش کی سہولت کے باعث سب سے مقبول یورپی ملک بن چکا ہے۔ ہالینڈ میں صہیونی بڑی تعداد میں سیکولر شہری علاقوں میں آباد ہورہے ہیں۔

جرمنی اور برطانیہ بھی ماہرین کی بھرتی اور فعال یہودی کمیونٹیز کے ذریعے مہاجرین کو قبول کر رہے ہیں۔ کینیڈا، فرانس اور آسٹریلیا باقاعدہ امیگریشن پروگراموں کے ذریعے اسرائیلی شہریوں کو آسائش سے جگہ مہیا کر رہے ہیں۔

اسرائیلی ڈیموگرافی پر ہجرت کے گہرے اثرات

اس بڑے پیمانے کی ہجرت سے اسرائیل کی علمی، صنعتی اور معاشی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے کیونکہ ملک چھوڑنے والوں میں اکثریت تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ہے۔ اس کے نتیجے میں اسرائیل کی آبادیاتی ساخت بھی تبدیل ہورہی ہے۔ سیکولر طبقہ تیزی سے نکل رہا ہے، جب کہ حریدی مذہبی گروہ اپنی بلند شرح پیدائش اوسطاً ہر خاندان میں 7 بچے کے ساتھ وہیں موجود ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ رجحان مستقبل میں اسرائیل کے علمی نظام، معیشت اور سماجی توازن میں گہرے بحران پیدا کرسکتا ہے۔

اقتصادی اور اسٹریٹجک اثرات

اقتصادی اور تکنیکی شعبوں کے ماہرین کی بڑے پیمانے پر ہجرت نے اسرائیل کی مجموعی قومی پیداوار اور ٹیکس آمدنی دونوں میں نمایاں کمی پیدا کردی ہے۔ اندازوں کے مطابق ہر تعلیم یافتہ اور ماہر شخص کی ہجرت سے اسرائیلی معیشت کو سالانہ دو لاکھ ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ جنگی تباہ کاریوں اور حالیہ معاشی بحران کے ساتھ، صہیونی حکومت کا غیر ملکی امداد پر انحصار بڑھ گیا ہے جبکہ داخلی اور خارجی خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت کمزور پڑ رہی ہے۔ اس صورتحال نے دفاعی بجٹ پر دباؤ بڑھا دیا ہے اور آسیب زدہ بنیادی ڈھانچے کی بحالی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔

صہیونی حکومت کی ناکام پالیسیاں

الٹی ہجرت کی اس بڑھتی ہوئی لہر کے مقابلے میں صہیونی حکام کی کوششیں کمزور اور غیر مؤثر ثابت ہوئی ہیں۔ بن گوریان ایئرپورٹ سے روانگی پر پابندیاں، خصوصی کمیٹیوں کی تشکیل اور واپسی کی ترغیب دینے والی تشہیری مہمات سب ہی ناکام رہی ہیں اور نخبگان کے فرار کو روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر پائیں۔ اس کے علاوہ، شہریت اور صحت بیمہ سے متعلق بعض قوانین واپسی کے لیے رکاوٹ بن گئے ہیں، جس کی وجہ سے حکومت کی حکمت عملی بے اثر ہو چکی ہیں۔

مستقبل کا منظرنامہ اور ممکنہ حالات

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر عسکری خطرات، داخلی کشیدگی اور سیاسی بحران اسی طرح جاری رہے تو ہجرت کی رفتار دوگنی ہوسکتی ہے۔ تعلیم یافتہ اور مہارت رکھنے والے افراد کا مستقل طور پر باہر چلے جانا اسرائیل کے آبادیاتی اور اقتصادی توازن کو مزید کمزور کر دے گا۔ یہ رجحان مستقبل میں اسرائیل کی معاشی بحالی، سماجی استحکام اور ترقی کی صلاحیت کو محدود کر دے گا اور اسے مزید خارجی مدد پر منحصر بنا دے گا۔

نتیجہ

جون 2025 کے بعد سے دستیاب آبادیاتی، سکیورٹی اور معاشی اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیلی آبادکاروں کی مقبوضہ علاقوں سے بڑے پیمانے پر روانگی ایسی سطح پر پہنچ چکی ہے جو صہیونی حکومت کی بنیادی ساخت کو خصوصی طور پر متاثر کرسکتی ہے۔ حالیہ ہجرت صرف کسی ایک مخصوص طبقے تک محدود نہیں رہی، بلکہ سماج کے مختلف طبقات اس میں شامل ہیں۔ قبرص اور یورپ جانے والے سمندری راستے سب سے زیادہ استعمال ہونے والے راستے بن چکے ہیں اور کئی نجی تفریحی کشتیوں کو ایمرجنسی کے ذریعے اسرائیل سے نکلنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

یہ صورتحال نہ صرف آبادیاتی بحران کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ صہیونی حکومت کے دعووں اور زمینی حقائق کے درمیان ایک واضح تضاد بھی ظاہر کرتی ہے۔ اکتوبر 2023 کی طوفان الاقصی کارروائی اور جون 2025 میں ایران کے میزائل حملوں نے اسرائیل کے دفاعی نظام اور بنیادی ڈھانچے کی کمزوری کو بے نقاب کردیا۔ مرکزی اور حساس علاقے گھنٹوں مفلوج ہوگئے، ایئرپورٹس بند ہوئے اور کابینہ کی پابندیوں کے باوجود عوام نے زمینی و سمندری راستوں سے فرار اختیار کیا۔

اسی دوران اسرائیل کے اندر سیاسی اور سماجی تقسیم بھی شدید تر ہوگئی۔ حریدی مذہبی آبادی کے تیز رفتار بڑھنے اور سیکولر طبقے کی سیاست و سماجی اداروں سے دوری نے اسرائیل کے مستقبل پر اعتماد کم کردیا، جس سے ہجرت کا رجحان مزید بڑھ گیا۔ اقتصادی لحاظ سے بھی صورت حال بگڑ چکی ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ چھوٹی کمپنیوں کے دیوالیہ ہونے، ٹیکنالوجی اور سیاحت کی صنعتوں میں جمود، اور ریزرو فوجیوں کی واپسی کے اخراجات نے سرکاری بجٹ پر شدید دباؤ ڈال دیا ہے۔

آج ہجرت معکوس ایک ناقابل انکار حقیقت بن چکی ہے۔ 2023 میں سالانہ 55 ہزار افراد کے مقابلے میں 2024 میں یہ تعداد بڑھ کر 82 ہزار سے بھی تجاوز کرگئی اور 2024 کی پہلی ششماہی میں طویل المدت ہجرت میں 59 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا۔ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو یہ ہجرت صہیونی حکومت کے سیاسی اور سکیورٹی مستقبل کی بنیادوں کو ہلاسکتی ہے اور اس منصوبے کو جو سکیورٹی، آبادیاتی برتری اور داخلی یکجہتی پر قائم تھا، شدید چیلنج درپیش ہوگا۔

News ID 1936647

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha