مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: 2023 میں شروع ہونے والا طوفان الاقصی فلسطینی مزاحمتی قوتوں کا وہ فیصلہ کن ردعمل تھا جس نے صہیونی حکومت کی عسکری برتری کے دعوے کو چیلنج کر دیا۔ اسرائیل نے غزہ پر شدید جارحیت کی، لیکن اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔ اس دوران فلسطینی مقاومت نے غیر معمولی استقامت کا مظاہرہ کیا، جس نے نہ صرف اسرائیلی فوج کو پسپائی پر مجبور کیا بلکہ عالمی سطح پر فلسطینی موقف کو تقویت دی۔ سیاسی و عسکری دباؤ کے باعث اسرائیل کو بالآخر امریکہ کی ثالثی میں جنگ بندی پر آمادہ ہونا پڑا۔ 29 ستمبر 2025 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے وائٹ ہاؤس میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران غزہ کے لیے 20 نکاتی امن منصوبے کا اعلان کیا۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ یہ منصوبہ جنگ کے خاتمے اور تمام قیدیوں کی رہائی کی ضمانت دیتا ہے۔
3 اکتوبر کو حماس نے اس منصوبے کے بعض نکات کو قبول کرتے ہوئے اسرائیلی قیدیوں کے بدلے فلسطینی اسیران کی رہائی، غزہ کی انتظامیہ میں تبدیلی اور اسلحہ کی واپسی جیسے مطالبات پیش کیے۔ مسلسل مذاکرات کے بعد حماس نے معاہدے کی توثیق کی، اور جمعہ سے غزہ سے اسرائیلی فوجوں کا انخلاء اور فلسطینی عوام کی واپسی شروع ہوگئی۔ یہ جنگ بندی اگرچہ ایک وقتی سکون کا باعث بنی، لیکن ماہرین اب بھی اس کے ٹوٹنے کے خدشات ظاہر کر رہے ہیں، خاص طور پر اسرائیل کی سابقہ وعدہ خلافیوں کے تناظر میں جنگ بندی کے مستقبل پر شکوک کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں۔
مہر نیوز نے اس حوالے سے ترک رکن پارلیمنٹ مصطفی کایا سے گفتگو کی ہے جس کا متن ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
مہر نیوز: شرم الشیخ (مصر) میں ٹرمپ کے منصوبے پر جمعرات کو جو معاہدے ہوئے، وہ تین کلیدی نکات پر مشتمل ہیں: اسرائیلی افواج کا غزہ سے انخلاء، انسانی امداد کی غزہ میں رسائی کی اجازت، اور قیدیوں کا تبادلہ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ابھی اس منصوبے کے ابتدائی مراحل میں ہیں، اور حماس کو غیر مسلح کرنے کا مرحلہ ابھی باقی ہے۔ کیا یہ معاملہ آئندہ مراحل میں ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے؟ اور اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی معاہدوں کی خلاف ورزی کے پیش نظر، کیا اس معاہدے کی خلاف ورزی کا امکان موجود ہے؟
مصطفی کایا: سب سے پہلے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اسرائیل اپنے سیاسی اور عسکری اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ وہ تقریباً دنیا بھر کی عوام کی نظر میں تنہا ہوچکا ہے اور آخرکار عالمی سطح پر انسانی امداد کے قافلوں کے اثرات کے باعث مذاکرات پر مجبور ہوا۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے ہتھیار صرف ایک فلسطینی ریاست کے حوالے کرے گی۔ اسرائیل، جو کسی حد و قید کو نہیں مانتا، بہت ممکن ہے کہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کرے۔ تاہم، اس جنگ بندی کی شرائط پہلے معاہدوں سے مختلف ہیں، کیونکہ اس پر ایک خصوصی نگران گروپ نظر رکھے گا۔ ان تمام باتوں کے باوجود، خطرہ اب بھی موجود ہے، لیکن ہم وقت کے ساتھ اس صورتحال کو زیادہ واضح طور پر سمجھ سکیں گے۔
مہر نیوز: جب صہیونی حکومت غزہ پر قبضے کی کارروائی شروع کی تھی، ہم نے دیکھا کہ اسی دوران اس نے ٹرمپ کے امن منصوبے کو قبول کرلیا۔ بہت سے تجزیہ کار اسرائیل کے غزہ پر حملوں کو بے نتیجہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسرائیل کو اسٹریٹجک شکست ہوئی ہے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ وہ حکومت جو حماس کو ختم کرنا چاہتی تھی، کس طرح اس تحریک کی جانب سے ٹرمپ کے منصوبے کی منظوری کی منتظر تھی۔ آپ اس پورے عمل کا کیسے تجزیہ کرتے ہیں؟
مصطفی کایا: اسرائیل بنیادی طور پر ایک بند گلی میں پھنس چکا ہے۔ وہ توقع کر رہا تھا کہ معاہدہ ابراہیم کے ذریعے اپنے قبضے کو وسعت دے گا، لیکن اس کے برعکس وہ تنہائی کا شکار ہوگیا اور یہاں تک کہ آس پاس کے ممالک پر حملے بھی کیے۔ بین الاقوامی عدالتوں نے اس حکومت کو نسل کشی کرنے والا دہشت گرد قرار دیا ہے۔ بعض ممالک نے اعلان کیا ہے کہ اگر نیتن یاہو ان کے ملک آئے تو وہ اسے گرفتار کرلیں گے۔ حتیٰ کہ خود ٹرمپ نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ریپبلکنز کے درمیان اسرائیل مخالف جذبات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر ممکن ہے کہ اسرائیل نے اس معاہدے کے ذریعے صرف وقت خریدنے کی کوشش کی ہو۔ لیکن اصل کام اب شروع ہوتا ہے۔ اسرائیل کے ہر اقدام پر نظر رکھنی ہوگی۔
مہر نیوز: یہ بات سب پر واضح ہے کہ ٹرمپ نوبل انعام حاصل کرنے کی خواہش رکھتے تھے اور اسی لیے وہ غزہ کی جنگ کو ختم کرنے اور آذربائیجان و آرمینیا کے درمیان سیاسی کشیدگی کو امن میں بدلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن یہ خواہش اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ کیا امریکی صدر آئندہ بھی غزہ کے امن منصوبے اور فریقین کی اس پر عملداری کو سنجیدگی سے آگے بڑھا سکیں گے؟
مصطفی کایا: ٹرمپ ایک عام کمپنی کے سی ای او کی طرح سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔ وہ امریکہ کو ایک تجارتی ادارے کی طرح چلانا چاہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس نے خلیج فارس اور دنیا بھر میں اسرائیل مخالف جذبات کے بڑھنے سے پیدا ہونے والے مالی نقصانات کو مدنظر رکھا ہو اور اسی لیے اس معاہدے کی کوشش کی ہو۔ اس نے یہ بھی اندازہ لگایا ہے کہ مشرق وسطی میں کشیدگی جاری رہنا ان کی توانائی ضائع ہونے کا باعث ہے اور چین و روس کے ساتھ مقابلے میں اسے نقصان پہنچائے گا۔ فی الحال وہ ایسے بیانات دے رہے ہیں جو اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں مددگار ہوں۔ نتیجہ کچھ بھی ہو، امریکہ اور اسرائیل کا اتحاد نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر بھی قائم ہے اور یہ اتحاد امریکہ کی داخلی و خارجی پالیسی میں ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔
مہر نیوز: ہم نے طوفان الاقصی آپریشن کے بعد دیکھا کہ مسئلہ فلسطین صرف ایک عربی یا اسلامی معاملہ نہیں رہا، بلکہ یہ دنیا بھر میں انسانی ضمیر کے لیے سب سے اہم بحران بن چکا ہے۔ "صمود فلوٹیلا" اس حقیقت کی ایک واضح مثال ہے، اور آپ کی پارٹی کے بعض سیاستدان اور ارکانِ پارلیمنٹ بھی اس قافلے میں شریک تھے۔ کیا آپ اس بارے میں کچھ کہنا چاہیں گے؟
مصطفی کایا: نسل کشی کے تین پہلو ہوتے ہیں: نسلی، مذہبی اور سیاسی۔ اگر کسی قوم کو ان تین بنیادوں پر ختم کرنے کی کوشش کی جائے، تو یہ نسل کشی کہلاتی ہے۔ اسرائیل نے غزہ میں ان تمام پہلوؤں کو عملی طور پر نافذ کیا ہے۔ اس کے علاوہ، اسرائیل نے پابندیوں اور محاصرے کے ذریعے قحط کو نسل کشی کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسے اقدامات جیسے "صمود فلوٹیلا" اور "فریڈم فلوٹیلا" نے عالمی ضمیر کو اس ظلم کے خلاف بیدار کیا ہے۔ یہ حقیقت کہ ہمارے ارکان پارلیمنٹ ایسے مشن کا حصہ بنے، ہماری طرف سے اس ظالمانہ محاصرے کے خلاف سب سے واضح اور عملی مخالفت ہے۔
آپ کا تبصرہ