27 ستمبر، 2025، 7:09 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

امریکہ کا باہمی تنازع؛ یورینیم کی افزودگی یا دین اور علم میں ایران کی پیشرفت؟

امریکہ کا باہمی تنازع؛ یورینیم کی افزودگی یا دین اور علم میں ایران کی پیشرفت؟

ایران کی ایٹمی پروگرام کی مخالفت کرنے والے مغربی ممالک درحقیقت ایران کی خودمختاری اور ترقی کو روکنے کی سازشیں کر رہے ہیں، جبکہ ایران اپنی ایٹمی صلاحیتوں کو نہ صرف دفاعی پیشرفت بلکہ سائنسی، طبی اور صنعتی شعبوں میں ترقی کے لیے استعمال کررہا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: گزشتہ دس سالوں میں جب ایران کے ایٹمی معاہدے کے ختم ہونے کا وقت قریب آ رہا تھا، تو اسرائیل نے امریکہ اور یورپی ممالک کے ساتھ مل کر ایران پر فوجی حملہ کیا۔ ایران نے اس حملے کا بھرپور اور پشیمان کن جواب دیا۔ اب یہ ممالک پابندیوں کو فوری بحالی کے نام پر دوبارہ عائد کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ ایران کی ایٹمی صنعت کو نقصان پہنچایا جاسکے۔ امریکہ اور مغرب کا اصل مقصد ایران کو ختم اور تباہ کرنا ہے، مگر فی الحال وہ ایٹمی علوم اور یورینیم کی افزودگی کی صنعت کو تباہ کرنے پر زیادہ زور دے رہے ہیں۔ کچھ لوگ جو مغربی پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر سوال کرتے ہیں کہ یورینیم کی افزودگی ایران کو کس چیز کے لیے چاہیے۔

اس سادہ سوال کا جواب کئی پہلوؤں سے اہم ہے۔ سب سے پہلے یہ کہ مغرب پہلے دعوی کرتا تھا کہ اس نے ایران کا یورینیم افزودگی کا حق دیا ہے، اور آج وہ خود کہتے ہیں کہ ایران کو یورینیم کی افزودگی کی کیا ضرورت ہے۔ اگر اصل مسئلہ صرف یورینیم افزودگی ہے تو پھر دوسری عالمی جنگوں میں جب ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں تھے تو اسے مغربی طاقتوں نے کیوں گھیر لیا اور لاکھوں ایرانی قحط اور بیماریوں کے باعث ہلاک ہوئے؟ یہ ایک حقیقی ہولوکاسٹ تھا۔

مغرب نواز حلقے ایران کو ہمیشہ قصوروار ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایران کا ایٹمی پروگرام نقصان دہ ہے، لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ امریکہ اور یورپ کو اربوں ڈالر خرچ کرکے ایران کی ایٹمی صنعت کو تباہ کرنے میں کیوں دلچسپی ہے؟ اگر یہی پیسہ ایران کو دیا جائے تو کیا وہ یورینیم افزودگی چھوڑ دے گا؟ ایران نے ماضی میں برازیل اور ترکی کے ساتھ بھی بات چیت کی، اور معاہدے کیے، لیکن پھر بھی مغرب نے حملے اور پابندیاں جاری رکھیں۔

رہبر معظم انقلاب نے فرمایا ہے کہ مغرب ایران کے دین اور علم کا دشمن ہے اور ہر اس قوم کا دشمن ہے جو مغربی سامراجی نظام میں شامل نہ ہو۔ امریکہ نے دوسری عالمی جنگ میں جاپان پر ایٹمی بم گرایا، حالانکہ اسے معلوم تھا کہ جاپان ہتھیار ڈال دے گا، مگر اس کا مقصد صرف تباہی اور قوموں کو دبانا ہے۔

ایٹمی ٹیکنالوجی اور توانائی کے فوائد بہت زیادہ ہیں۔ دنیا بھر میں ایٹمی توانائی سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے، مگر مغرب ایران کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔ ایران نے ایٹمی سائنسدانوں کی قربانیوں کے باوجود اپنی ایٹمی صلاحیت کو برقرار رکھا ہے اور لاکھوں ایرانی اس کے فوائد سے مستفید ہو رہے ہیں۔

ایٹمی صنعت نہ صرف توانائی بلکہ دیگر شعبوں کی ترقی کا باعث بنتی ہے۔ مثال کے طور پر، 20 فیصد سے زیادہ یورینیم افزودگی ہر سطح پر الگ الگ فائدے دیتی ہے، جیسے کہ 18 قیراط اور 24 قیراط کے سونے میں فرق ہوتا ہے، ویسے ہی مختلف افزودگی کی سطحیں مختلف مقاصد کے لیے کام آتی ہیں۔

تابکاری کا استعمال صنعتی اور زرعی شعبوں میں ہوتا ہے، جس کے لیے 20 فیصد سے زیادہ افزودہ یورینیم ضروری ہوتا ہے۔ استعمال شدہ ایندھن کی اپنی اہمیت ہے جو جہاز سازی، ہوابازی، میزائل ٹیکنالوجی اور تحقیقی کاموں میں آتا ہے۔

چھوٹے پاور ری ایکٹرز کے لیے ایندھن تیار کرنا بھی اسی سلسلے کا حصہ ہے، جو ایران کو کم لاگت اور زیادہ توانائی دینے میں مدد دیتا ہے۔

یورینیم افزودگی اور ایٹمی ٹیکنالوجی کے لیے مختلف شعبوں کے ماہرین جیسے طبیعیات، میکنیکل انجینئرنگ، مواد سازی، برقیات، ویکیوم اور نینو ٹیکنالوجی میں کام کرتے ہیں۔ یہ تمام شعبے آپس میں جڑے ہوتے ہیں اور ایک مضبوط علمی اور تکنیکی ماحول قائم کرتے ہیں جو ملک کی ترقی کا باعث بنتا ہے۔

ایٹمی ٹیکنالوجی بنیادی علوم جیسے اعلی ریاضی میکینیک اور تھرموڈائنامکس کی گہری سمجھ بھی پیدا کرتی ہے، جس سے یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کا معیار بلند ہوتا ہے۔

یہ ٹیکنالوجی نینو ٹیکنالوجی، ایرو اسپیس، میڈیکل، اور الیکٹرانکس جیسے شعبوں میں بھی داخل ہو رہی ہے، جو ایران کی صنعتی ترقی کو وسیع کرتی ہے۔

ریڈیو دوائیں، جو سالانہ لاکھوں ایرانی مریضوں کی زندگی بچاتی ہیں، اسی ایٹمی تحقیق کا حصہ ہیں۔ تحقیقی ری ایکٹرز کے لیے ایندھن کی مستقل فراہمی ملک کی طبی سہولیات کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

مغرب اگر کہتا ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام کوئی فائدہ مند نہیں تو یہ ایک تلخ مسکراہٹ سے زیادہ کچھ نہیں۔

ایران نے تیل کے شعبے میں بھی وہی راستہ اختیار کیا ہے جہاں کبھی مغرب کہتا تھا کہ تیل کے فائدے سے زیادہ اس کا خرچ ہے، لیکن آخرکار اس نے تیل کی صنعت کو سنبھالا۔

آخر میں، یورینیم کی افزودگی کی سطح کو دو حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے: 20 فیصد سے کم اور 20 فیصد سے زیادہ۔

20 فیصد سے کم کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: کم افزودہ یورینیم (3-5 فیصد) جو بجلی گھروں کے لیے استعمال ہوتا ہے، اور زیادہ افزودہ یورینییم (5-20 فیصد) جو تحقیقی ری ایکٹرز، چھوٹے ماڈیولر ری ایکٹرز، صنعتی اور طبی استعمال کے لیے ہے۔

20 فیصد سے زیادہ افزودگی کے ساتھ یورینیم کے استعمال کو خاص اہمیت حاصل ہے، چاہے وہ 60 فیصد ہو یا اس سے زیادہ، کیونکہ یہی ایندھن توانائی، طبی اور صنعتی شعبوں میں استعمال ہوتا ہے اور دفاعی طاقت کا بھی حصہ ہے۔

News ID 1935616

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha