13 ستمبر، 2025، 10:14 PM

باکو، صہیونی مذہبی رہنماؤں کا اجتماع، معاہدہ ابراہیم میں باکو کی ممکنہ شمولیت، ولایتی کا سخت ردعمل

باکو، صہیونی مذہبی رہنماؤں کا اجتماع، معاہدہ ابراہیم میں باکو کی ممکنہ شمولیت، ولایتی کا سخت ردعمل

باکو میں یورپی صہیونی رہنماؤں کی بڑی کانفرنس میں معاہدہ ابراہیم پر بات ہوگی، صدر علیئوف کی شرکت متوقع؛ رہبر معظم کے مشیر نے اقدام کو اسلام مخالف قرار دیا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق رہبر معظم کے مشیر علی اکبر ولایتی نے آذربائیجان میں یہودی مذہبی رہنماؤں کے طے شدہ اجلاس اور اس کے اہداف پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک شیعہ مسلم ملک میں صہیونی ربیوں کا اجلاس حیران کن اور افسوسناک ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ خبر درست نہ ہو۔

ولایتی نے کہا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ آذربائیجان کی حکومت اس نوعیت کی اسلام مخالف حرکت کر رہی ہے، جو عالمی سطح پر شیعہ برادری کی حیثیت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

انہوں نے یاد دلایا کہ آذربائیجان کے عوام تقریبا بارہ سو سال سے مسلمان ہیں اور وہ یقینا اس اقدام سے خوش نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس اجلاس کا مقصد معاہدہ ابراہیم کو وسعت دینا اور آذربائیجان کو اس میں شامل کرنا ہوسکتا ہے۔

ولایتی نے صہیونی حکومت کے مختلف ممالک کے خلاف اقدامات کی طرف بھی اشارہ کیا اور سوال اٹھایا کہ آخر آذربائیجان ایسی حکومت کے ساتھ تعاون کیوں کر رہا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ آذربائیجان اور قفقاز کے غیور عوام اس خلاف عقیدہ عمل کو قبول نہیں کریں گے۔

یاد رہے کہ باکو میں اس سال نومبر میں یورپی ربیوں کی بڑی کانفرنس منعقد ہوگی جس میں یورپ بھر سے 500 سے زائد یہودی مذہبی رہنما شریک ہوں گے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اس اجلاس کے ایجنڈے میں اسرائیل اور چار عرب ممالک کے درمیان ہونے والے معاہدہ ابراہیم کو وسعت دینے پر تبادلہ خیال کیا جائے گا جبکہ خاص طور پر آذربائیجان کی ممکنہ شمولیت پر بات چیت کی جائے گی۔ ساتھ ہی مذہبی آزادی کے فروغ اور یورپ میں بڑھتی ہوئی یہود دشمن رجحانات کے خلاف اقدامات پر بھی گفتگو ہوگی۔

عالمی سطح کی یہ تقریب 12 سے 15 نومبر تک جاری رہے گی اور توقع ہے کہ صدر الهام علیئوف بھی اس میں شریک ہوں گے۔ یہودی ربی قوبا کا بھی دورہ کریں گے، جہاں بڑی تعداد میں یہودی آباد ہیں۔ رواں سال کے آغاز میں یورپی ربیوں کی کانفرنس کے صدر ربی پنحاس گولڈشمیڈ نے صدر علیئوف سے ملاقات کے موقع پر کہا تھا کہ آذربائیجان یہودی عوام کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے اور دنیا کی نایاب یہودی برادریوں میں سے ایک کا گھر ہے۔

قابل ذکر ہے کہ ابراہیم معاہدہ 2020 میں نافذ ہوا تھا جس کا ہدف اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا ہے۔ اس کے دو پہلو ہیں: ایک فلسطین تنازع کے حل اور نئی فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق ہے، تاہم اس منصوبے میں فلسطینی زمین زیادہ تر اسرائیل کے حق میں رکھی گئی ہے۔ دوسرا پہلو عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے پر مبنی ہے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آذربائیجان کی ابراہیم معاہدے میں ممکنہ شمولیت محض ایک قیاس آرائی نہیں، بلکہ ایک طویل المدتی حقیقت کا عکاسی ہے۔ باکو اور تل ابیب کے درمیان توانائی، دفاع اور ٹیکنالوجی سمیت کئی حساس شعبوں میں برسوں سے گہرے روابط قائم ہیں۔ اب اگر ان تعلقات کو کھلے عام سفارتی شکل دی جاتی ہے تو یہ قدم دراصل اسلام دشمن عزائم کو قانونی لبادہ پہنانے کے مترادف ہوگا۔

یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ایک مسلمان اکثریتی ریاست آخر کس منہ سے ایسے قاتل و غاصب رژیم کے ساتھ تعلقات بڑھا رہی ہے جو اس وقت غزہ کی سرزمین پر معصوم بچوں اور عورتوں کا خون بہا رہی ہے؟ آذربائیجان کی حکومت اس اقدام سے نہ صرف اپنی اسلامی شناخت کو داغدار کر رہی ہے بلکہ خطے میں ایک نئے فتنہ و انتشار کا دروازہ کھول رہی ہے۔

اس شمولیت کے نتیجے میں امریکا کی 1992 کی وہ پابندیاں بھی ختم ہوسکتی ہیں جن کے تحت آذربائیجان کو براہ راست امداد نہیں دی جاتی تھی۔ یوں باکو اپنے اقتدار کو مستحکم بنانے کے لیے واشنگٹن اور تل ابیب کے ہاتھوں کھلونا بننے پر تیار دکھائی دیتا ہے۔ اسلامی دنیا کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ ایک مسلم ملک کس طرح کھلے عام ان قوتوں کے قدموں میں بیٹھنے کو تیار ہے جو فلسطینیوں کے قتلِ عام کی اصل ذمہ دار ہیں۔ اس تناظر میں علی اکبر ولایتی کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ یہ فیصلہ آذربائیجان کے عوامی عقائد اور غیرتِ ایمانی پر ایک کھلا حملہ ہے اور اس کے نتائج بالآخر باکو حکومت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گے۔

سیاسی تجزیہ کار قادر اصلان کے مطابق یہ کوئی پہلا موقع نہیں، اس سے قبل 2022 میں بھی اسرائیلی سفارتکار آذربائیجان میں جمع ہوچکے ہیں، جو اس ملک کے محفوظ اور معتبر ہونے کا ثبوت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہودی ربیوں کی آمد اور اسرائیل کے ترکی و شام کے ساتھ مذاکرات کا باکو میں ہونا آذربائیجان کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اصلان کے مطابق، آذربائیجان، اسرائیل اور امریکا کا سہ فریقی اتحاد پہلے ہی خطے میں کردار ادا کر رہا ہے اور اب یہ اتحاد مزید مضبوط ہوسکتا ہے۔

باکو میں اس سے پہلے بھی قفقاز یہودیوں کے ورثے پر ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوچکی ہے، جس میں امریکا، اسرائیل، فرانس اور دیگر ممالک سے 60 سے زائد محققین نے شرکت کی تھی۔ اب ربی یہ بھی چاہتے ہیں کہ آذربائیجان، قازقستان اور ازبکستان بھی معاہدے کا حصہ بنیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حالات کو دیکھتے ہوئے قوی امکان ہے کہ سال کے اختتام تک آذربائیجان ’’ابراہیم معاہدے‘‘ میں شامل ہوجائے۔

News ID 1935335

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha

    تبصرے

    • PK 11:03 - 2025/09/14
      0 0
      آذربائجان والے اللّٰہ کے دشمنوں کے ساتھ ملکر اپنے لئے تباہی کا سامان پیدا کر رہے ہیں ۔