مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا ہے کہ یہ مایوس کن اور افسوسناک ہے کہ اسلامی دنیا غزہ میں جاری مظالم اور انسانی المیوں کے مقابلے میں متناسب ردعمل نہیں دکھا رہی۔ وحدت اسلامی آج کے حالات میں محض ایک مثالی تصور نہیں بلکہ قطعی ضرورت اور دینی ذمہ داری ہے۔
39ویں بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کے موقع پر وزارت خارجہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عراقچی نے کہا کہ ڈیڑھ ارب مسلمان اگر متحد ہو جائیں تو اپنے بے پناہ وسائل اور صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اسلامی دنیا کی ترقی اور سربلندی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ امت اسلامیہ کی شناخت اور وحدت آج براہ راست نشانے پر ہے اور مسلمانوں کی طاقت مغربی و امریکی حمایت یافتہ صہیونی سازشوں کی زد میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں جب مسلمان رسول اکرمؐ کا میلاد منا رہے ہیں، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے بہن بھائی خصوصاً غزہ کے عوام روزانہ کی بنیاد پر نسلکشی جیسے سنگین جرائم کا شکار ہورہے ہیں۔ صہیونی حکومت بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہے اور نہتے شہریوں پر اس وقت بھی حملے کرتی ہے جب وہ معمولی مقدار میں کھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ کھلی جنگی جرائم کی واضح مثال ہے۔
عراقچی نے مزید کہا کہ ٹیکنالوجی کی ترقی نے دنیا کو ان مظالم سے باخبر کر دیا ہے اور لوگ براہ راست ٹیلی ویژن پر ان مناظر کو دیکھ رہے ہیں، اس کے باوجود بیشتر ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اسلامی دنیا کی یہ خاموشی افسوسناک ہے۔ ان خطرات سے نمٹنے کا واحد راستہ اتحاد ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ آج خطے کے ممالک اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ صہیونی حکومت کا خطرہ کسی ایک علاقے تک محدود نہیں بلکہ پورے خطے اور عالم اسلام کو نشانہ بنا رہا ہے۔ صہیونی منصوبہ تفرقہ، کمزوری اور امت اسلامیہ کی تقسیم ہے، اور اب وہ کھلے عام اسرائیل بزرگ کے منصوبے کا ذکر کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین، شام و ایران پر مختلف جنگیں مسلط کرنے کے بعد ایک مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ خطے کی اقوام پر اصل خطرہ آشکار ہوگیا ہے۔ ماضی میں ایران کو خطرہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن آج حقیقت کھل چکی ہے کہ اصل دشمن صہیونزم ہے۔ اسی وجہ سے خطے کے ممالک کے ساتھ ایران کا تعاون بڑھ رہا ہے اور ایران حقیقی دوست و حامی کی حیثیت سے پہچانا جا رہا ہے۔
عراقچی نے زور دیا کہ صہیونی حکومت کے خلاف صرف بیانات اور قراردادیں کافی نہیں بلکہ عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔ غزہ کے عوام کو فوری طور پر خوراک، پانی اور ادویات کی ضرورت ہے اور اسلامی ممالک کو عملی طور پر ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے۔ جو ممالک اب تک صہیونی حکومت کے ساتھ سفارتی یا تجارتی تعلقات رکھے ہوئے ہیں انہیں یہ تعلقات ختم کر دینا چاہئیں کیونکہ یہ عقل، انسانیت اور دین کا تقاضا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صہیونی حکومت یہ سمجھتی تھی کہ ایک اچانک حملے سے ایران کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دے گی، لیکن وہ سخت غلط فہمی کا شکار ہوئی۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ ایران کے مسئلے کا کوئی فوجی حل موجود نہیں، واحد راستہ منصفانہ اور باعزت مذاکرات ہیں۔
آپ کا تبصرہ