مہر خبر رساں ایجنسی کے نمائندے کے ساتھ ایک انٹرویو میں حجت الاسلام محمد تقی نقدلی نے اصفہان اور نطنز پرامن ایٹمی تنصیبات پر امریکی جارحیت کے بارے میں کہا کہ اگرچہ امریکہ نے ایران پر صیہونی حکومت کے حملوں کے آغاز سے ہی اس واقعے سے خود کو الگ سمجھا، لیکن درحقیقت اسرائیل کو امریکہ کی طرف سے انٹیلی جنس، لاجسٹک اورجنگی سازو سامان کی فراہمی کی حمایت حاصل تھی؛ حتی کہ عین ممکن ہے امریکہ نے بلا واسطہ افرادی قوت کے لحاظ سے بھی غاصب اسرائیل کی مدد کی ہو۔
انھوں نے مزید کہا کہ حالیہ دنوں میں امریکہ نے اس موجودہ جنگ میں ملوث نہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن گزشتہ رات اس نے واضح طور پر اعلان کیا کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ میں داخل ہو گیا ہے اور حملے کے بعد اس نے اپنی کارروائی کو سر عام کر دیا ہے۔
اصفہان کے نمائندے نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ہماری اصل اور حقیقی جنگ شیطان اکبر امریکہ کے ساتھ 46 سال سے جاری ہے، کہا: گزشتہ رات کے امریکی حملے میں کچھ نیا واقعہ پیش نہیں آیا ہے، جیسا کہ گزشتہ ہفتے انہی جوہری مقامات پر حملہ کیا گیا تھاس سلسلے میں اٹامک انرجی تنظیم کو نقصان کی تفصیلات کا اعلان کرنا چاہیے۔
پارلمینٹ میں خمینی شہر کے عوام کے نمائندے نے کہا کہ صوبہ اصفہان اور ان شہروں میں جہاں یہ حملے ہوئے ہیں زندگی معمول کے مطابق جاری ہے۔کل رات سنی جانے والی آوازیں معمول کی آوازیں تھیں جو اس سے پہلے دفاعی کارروائیوں سنی گئی تھی۔ اصفہان اور نطنز کے شہروں میں زندگی معمول کے مطابق چل رہی ہے۔
انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے حالیہ اقدام نے اس کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے ۔ امریکہ کے بزدلانہ اقدام نے اسلامی جمہوری ایران کے لیے یہ راستہ فراہم کیا ہے کہ وہ دنیا بھر میں امریکی مفادات کو ایران کے لیے ایک جائز دفاع کے طور حملوں کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔
آپ کا تبصرہ